1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

صومالیہ کا سیاسی و انسانی بحران

ندیم گل13 جنوری 2009

متحدہ جمہوریہ صومالیہ، براعظم افریقہ کا ایک اور پسماندہ ملک، جہاں 30 لاکھ افراد بھوک و افلاس کے شکار ہیں۔

https://p.dw.com/p/GXF9
تصویر: AP

تقریبا 90 لاکھ کی مجموعی آبادی میں سے 10 لاکھ افراد بے گھر ہیں۔ اتنے ہی لوگ قحط اور بیماریوں کے باعث لقمہ اجل بن چکے ہیں اور وہاں گزشتہ 17 سال سے کوئی باقاعدہ حکومت بھی نہیں۔

داخلی شورش کا شکار یہ افریقی ملک 1960 میں برطانیہ اور اٹلی سے آزادی کے بعد سے ہی سیاسی اور انسانی بحران کی لپیٹ میں ہے۔

دسمبر 2008 کے دوران وہاں سیاسی بحران اس وقت اور بھی کشیدہ ہوگیا جب نومنتخب وزیراعظم محمد محمود نے عہدہ سنبھالنے کے ایک ہفتے بعد ہی استعفیٰ دے دیا جبکہ صدر عبداللہ یوسف بھی مستعفی ہو گئے۔

Somalia bewafnete Miliz in Mogadishu
شدید سیاسی و انسانی بحران نے اس افریقی ملک میں المیے کی سی صورت اختیار کر رکھی ہےتصویر: AP

صومالیہ میں انسانی بحران کا اندازہ اس ‌حقیقت سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس پسماندہ افریقی ملک میں متوقع اوسط عمر 50 سال بھی نہیں۔ سیاسی عدم استحکام کا حال یہ ہے کہ 1991 کے بعد ملک میں باقاعدہ مرکزی حکومت کا قیام ممکن ہی نہیں ہوسکا۔

عالمی برادری کے ساتھ ساتھ صومالیہ میں سیاسی استحکام کے لئے کینیا بھی کوششیں کرتا رہا ہے۔ اس کے ایک بزرگ سیاست دان موزز ویٹینگیولا کا کہنا ہے: "صومالیہ میں قیام امن کے لئے ہم سرگرمی سے کام کرتے رہے ہیں۔ لیکن یہ کام بہت مشکل رہا ہے

دسمبر 2008 تک صدر عبداللہ یوسف ایک سال کے عرصے میں دو وزرائے اعظم کو برخاست کر چکے ہیں۔ تیسرے وزیراعظم نے عہدہ سنبھالنے کے ایک ہفتے بعد ہی استعفیٰ دے دیا جس کے بعد صدر بھی مستعفی ہو گئے۔

Somalia Krieg Regierungstruppen in Burhakaba
برسوں سے کسی باقاعدہ حکومت کے نہ ہونے کے باعث یہاں غربت اور بیماریوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہےتصویر: AP

صدر عبداللہ یوسف نے وزیر اعظم نور حسن حسین کو عہدے سے ہٹانے کے بعد محمد محمود کو دسمبر میں وزیراعظم نامزد کیا۔ تاہم ملکی پارلیمان نے صدر کے اس اقدام کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے پہلے وزیراعظم نور حسن کو ہی بھاری اکثریت سے اعتماد کا ووٹ دے دیا۔ نورحسن سے پہلے 2007 میں صدرعبداللہ یوسف نے سابق وزیراعظم علی محمد کو بھی برخاست کیا تھا ۔

صومالیہ میں داخلی شورش، سیاسی عدم استحکام، بھوک و افلاس، 2007 میں یہ سب مسائل گھبیر صورت اختیار کر چکے تھے۔ اسی سال اقوام متحدہ نے بتایا کہ فروری سے اپریل 2007 تک تین لاکھ سے زائد صومالی موغادیشو میں جاری لڑائی کے باعث نکل مکانی کرگئے۔ اس دوران سینکڑوں افراد مارے گئے۔ عالمی ادارہ برائے خوراک نے خبردار کیا کہ قزاقوں کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کے باعث اشیائے خوردونوش کی فراہمی متاثر ہورہی تھی۔ ہیومین رائٹس واچ نے ایتھوپیا، صومالیہ اور لڑائی کے دیگر فریقین پر جنگی جرائم میں ملوث ہونے کا الزام لگایا۔ اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب Ahmedou Ould-Abdallah نے صومالیہ میں جاری انسانی بحران کو افریقہ کا بدترین بحران قراردیا۔

Kämpfe in Somalia
تصویر: AP

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہرآنےوالا سال، صومالی عوام کے کئے دُکھوں کی نوید ہی لے کر آتا رہا ہے۔ آخر اس کے شہریوں پر عرصہ حیات تنگ کیوں ہوتا جا رہا ہے، اور سیاسی استحکام کی کوئی راہ پیدا کیوں نہیں ہورہی؟ انہی پہلوؤں پر ہم پشاور یونیورسٹی میں شعبہ سیاسیات کے سابق چیئرمین اور تجزیہ نگار اے زیڈ ہلالی سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ آزادی سے لے کر ایک دہائی تک صومالیہ کے معاشی اور سماجی حالات میں کوئی مثبت تبدیلی نہ آئی۔ ان کا مؤقف تھا کہ برطانیہ اور اٹلی کی حکومتوں نے بھی وہاں سماجی و معاشی ترقی کے لئے کوئی خاص اقدامات نہیں کئے۔ ڈاکٹر اے ذیڈ ہلالی نے کہا کہ اس طرح وہاں قبائلی نظام کا عفریت مزید جڑیں پکڑتا گیا: "اس صورت حال میں اقوام متحدہ کو مداخلت کرنا پڑی۔ قرارداد منظور کی گئی کہ اقوام متحدہ کی امن فوج وہاں بھیجی جائے۔ اس میں پاکستان امریکہ اور آٹھ دیگر ممالک کی افواج صومالیہ بھیجی گئیں۔

تاریخی پس منظر

20 ویں صدی کے اوائل میں صومالیہ دو حصوں پر مشتمل تھا۔ اس کا ایک خطہ برطانیہ کے زیرانتظام تھا اور دوسرے حصے پر اٹلی کی حکومت تھی۔ 1960 میں ان دونوں علاقوں کا انضمام ہو گیا اور صومالیہ ایک آزاد اور خودمختار ریاست بن کر دُنیا کے نقشے پر ابھرا۔ Aden Abdullah Osman Daar متحدہ جمہوریہ صومالیہ کے پہلے صدر بنے۔

آزاد ریاست کا قیام صومالی عوام کے لئے کوئی خوشخبری ثابت نہیں ہوا۔ نئی حکومت کا استقبال سیاسی بحران اور پڑوسی ممالک کے ساتھ تنازعات نے کیا۔ 1969 میں ملک کے دوسرے صدر Abdi Rashid Ali Shermarke کو قتل کر دیا گیا اور Muhammad Siad Barre کی سربراہی میں فوجی حکومت برسراقتدار آگئی۔

Somalia Polizist in Mogadishu
ایک صومالی پولیس اہلکارتصویر: AP

1974-75 میں صومالیہ کو بدترین خشک سالی کا سامنا کرنا پڑا، سینکڑوں افراد مارے گئے۔

1990 کی دہائی صومالیہ کے لئے اور بھی زیادہ بری خبریں لے کر آئی۔ سیاسی بحران مزید کشیدہ ہوگیا اور انسانی بحران پر قابو پانے کے امکانات معدوم ہوگئے۔ 1991 میں فوجی حکمراں Muhammad Siad Barre کی حکومت ختم ہو گئی۔ اس کے ساتھ ہی مقامی سرداروں Mohamed Farah Aideed اور Ali Mahdi Mohamed کے درمیان اقتدار کی جنگ چھڑ گئی۔ اس لڑائی میں ہزاروں شہری بھی مارے گئے۔ اس کے بعد صومالیہ میں باقاعدہ حکومت کی تشکیل کبھی ممکن نہیںِ ہوئی۔ اسی سال صومالیہ کے سابق برطانوی خطے صومالی لینڈ کو خودمختار ریاست قرار دے دیا گیا۔ تاہم عالمی برادری نے اسے تسلیم نہ کیا۔

1992 میں اقوام متحدہ کی امن فوج صومالیہ میں داخل ہوئی۔ امریکی فوجی بھی دارالحکومت موغادیشو پہنچے جن کے ساتھ ملیشیا کی لڑائی میں سینکڑوں شہری بھی مارے گئے۔ 1995 میں اقوام متحدہ کی امن فوج صومالیہ سے ناکام لوٹ گئی۔

2000 میں Abdulkassim Salat Hassan صومالیہ کے صدر بن گئے۔ Ali Khalif Gelayadh وزیر اعظم بنے۔ یہ عبوری حکومت تھی۔ تاہم اس کے ایک سال بعد ہی صومالی سرداروں نے چھ ماہ کے اندر اندر قومی حکومت تشکیل دینے کا اعلان کردیا۔ 2004 میں مرکزی حکومت کی بحالی کی ایک اور کوشش کے نتیجے میں ملک میں نئے عبوری پارلیمان کا افتتاح ہوا اور عبداللہ یوسف ملک کے صدر بنے۔ صدارتی انتخابات کینیا میں ہوئے۔ اس کی وجہ صومالی دارالحکومت موغادیشو میں سلامتی کی صورت حال تھی۔ 2005 میں کینیا سے صومالی حکومت کی منتقلی کا عمل شروع ہوا۔ تاہم یہ تنازعہ برقرار رہا کہ ملکی پارلیمان کس جگہ بنایا جائے۔

Friedenskonferenz Somalia - Strassenpatrouille
تصویر: AP

2006 میں ملیشیا کے درمیان بدترین فسادات کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس دوران سینکڑوں شہری مارے گئے۔ اسی سال یونین آف اسلامک کورٹس کی حامی ملیشیا نے موغادیشو اور جنوب کےد یگر علاقوں کا کنٹرول سنبھال لیا۔ افریقی یونین اور عرب لیگ نے ایتھوپیا پر زور دیا کہ وہ صومالیہ سے اپنے فوجی نکال لے۔ تاہم سال کے آخر میں صومالی حکومت اور ایتھوپیا کی مشترکہ فوج نے موغادیشو کا کنٹرول واپس حاصل کرلیا۔

اب اتھوپیا کی فوج صومالیہ چھوڑ رہی ہے جبکہ افریقی یونین کے امن مشن کے تحت یوگینڈا اور برونڈی کی فوجیں ملک میں آ رہی ہیں۔

Fregatte Emden vertreibt Piraten vor Somalia
صومالیہ سے تعلق رکھنے والے بحری قزاقوں سے درجنوں جہازوں کا اغوا کیاتصویر: picture-alliance/dpa

صومالی قزاق

دوسری جانب ملک میں سیاسی عدم استحکام کے باعث قزاقوں کا مسئلہ بھی پیدا ہوا۔2008 میں خلیج عدن اور صومالیہ کے قریب ب‍حرہند میں قزاقوں کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا۔ وہ تاوان کی مد میں خطیر رقوم حاصل کر چکے ہیں۔ابھی تک تقریبا ایک درجن سے زائد بحری جہاز ان قزاقوں کے قبضے میں ہیں جبکہ انہوں نے جہازوں کے عملے کو بھی یرغمال بنا رکھا ہے۔

عالمی برادری نے قزاقوں کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے ان کے خلاف آپریشن شروع کیا۔ جس میں تیزی نومبر 2008 میں اس وقت آئی جب قزاقوں نے سعودی تیل بردار جہاز Sirius Star کو اغوا کرلیا۔ جہاز پر ایک سو ملین ڈالر مالیت کا دو ملین بیرل تیل لدا ہوا تھا۔ اب تک اغوا کیا جانے والا یہ سب سے بڑا بحری جہاز بدستور صومالی قزاقوں کے قبضے میں ہے۔

Piraten werden in Somalia abgeführt
تصویر: AP

جرمن پارلیمان نے صومالیہ کے ساحلی علاقوں میں سرگرم قزاقوں پر قابو پانے کے لئے ایک جنگی بحری جہاز اور 1400 فوجی خلیج عدن بھیجنے کی منظوری دسمبر 2008 میں دی ۔ جرمنی کا یہ بحری مشن قزاقوں کے خلاف یورپی یونین کے آپریشن ایٹالانٹا کا حصہ ہے۔

جرمن بحری دستے امریکی قیادت میں جاری "آپریشن اینڈیورنگ فریڈم" کے تحت قرن افریقہ میں بھی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس مشن کے تحت جرمن بحری جہاز کارلسروہے پہلے سے ہی خطے میں موجود تھا جو آپریشن ایٹالانٹا میں شامل ہو گیا۔