صومالیہ کا قحط: تین ماہ میں 29 ہزار بچے ہلاک
4 اگست 2011امریکی حکام کی طرف سے صومالیہ کے قحط میں اب تک ہونے والی ہلاکتوں کی اطلاع دیتے ہوئے عالمی برادری سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے آگے بڑھے۔ قرن افریقہ میں خشک سالی اور بھوک کے شکار بچوں کی دل دہلا دینے والی تصاویر سامنے آنے کے باوجود بین الاقوامی برادری کی طرف سے اس انسانی مسئلے پر قابو پانے کے لیے امدادی سرگرمیوں میں اب تک کوئی خاص پیش رفت نہیں دیکھی گئی۔
امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی (USAID) کی نائب ایڈمنسٹریٹر نینسی لِنڈبورگ Nancy Lindborg کا کہنا ہے: ’’ہمارے اندازوں کے مطابق صومالیہ میں گزشتہ 90 دنوں کے دوران پانچ برس تک کی عمر کے 29 ہزار بچے ہلاک ہوچکے ہیں۔ ‘‘لنڈبورگ کے مطابق یہ تعداد اس عمر کے کُل صومالی بچوں کے چار فیصد کے قریب بنتی ہے۔
ایک امریکی سینیٹر کرِس کونز Chris Coons نے اس قحط کو کئی نسلوں کا سخت ترین انسانی بحران قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ موجودہ قدرتی آفت صومالیہ کے 1980ء کی دہائی کے قحط سے بھی شدید ہے۔ 80 کی دہائی میں قحط کے باعث صومالیہ میں ایک ملین افراد لقمہء اجل بن گئے تھے۔ سینیٹر کونز کے مطابق افگوئے کوریڈور کے علاقے میں چار لاکھ سے زائد بے گھر افراد کیمپوں میں موجود ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ دنیا میں اندرونی طور پر بے گھر ہونے والوں کا سب سے بڑا کیمپ ہے۔
بدھ تین اگست کو اقوام متحدہ کی طرف سے دارالحکومت موغادیشو سمیت صومالیہ کے تین مزید علاقوں کو قحط زدہ قرار دے دیا گیا۔
اقوام متحدہ کی طرف سے صومالیہ میں خوراک کے لیے یونٹ ’ یو این فوڈ سکیورٹی اینڈ اینالیسز یونٹ فار صومالیہ (FSNAU) کے سربراہ Grainne Moloney کے بقول قحط زدہ علاقوں میں جن تین نئے علاقوں کو شامل کیا گیا ہے ان میں افگوئے Afgoye کوریڈور میں اندرونی طور پر بے گھر ہونے والے افراد IDPs کے کیمپس، دارالحکومت موغادیشو کے تمام سات ضلعوں میں IDPs کے کیمپس اور وسطی شابیلے Shabelle کے اضلاع بالاد Balaad اور ادالے Adale شامل ہیں۔
گزشتہ ماہ اقوام متحدہ کی طرف سے لمبے عرصے سے جاری خشک سالی سے ملک کے جنوبی علاقے باکول Bakool اور زیریں شابیلے کو قحط زدہ قرار دیا گیا تھا۔
رپورٹ: افسر اعوان
ادارت: مقبول ملک