ضربِ عضب کا تجزیہ قبل از وقت ہے، امریکا
30 اگست 2014تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستانی فورسز کے آپریشن نے عارضی طور پر دشمن کے پاؤں اکھاڑ دیے ہیں اور شدت پسند افغانستان کی جانب فرار ہو گئے ہیں۔ امریکا کے میرین جنرل جوزف ڈنفورڈ اور امریکی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارٹن ڈیمپسی کا کہنا ہے کہ شمالی وزیرستان میں عسکری کارروائیوں پر کوئی فیصلہ کرنا تاحال قبل از وقت ہے۔
جنرل ڈنفورڈ کا کہنا ہے کہ بلاشبہ کچھ فائٹر بے گھر پناہ گزینوں کے ساتھ افغانستان فرار ہو گئے ہیں۔ وہ جمعرات کو افغانستان میں امریکا کے اعلیٰ کمانڈر کی حیثیت سے سبکدوش ہو گئے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ابھی تک ہزاروں جنگجوؤں کو یکجا ہوتے اور تشدد کی سطح میں اضافہ ہوتے ہوئے نہیں دیکھا گیا، جس سے شمالی وزیرستان سے آنے والے دشمن کی افغانستان میں کارروائیاں کرنے کی اہلیت کا اشارہ مل سکے۔
رواں ہفتے کابل کے ایک دورے کے موقع پر جنرل ڈیمپسی نے صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا: ’’میرے خیال میں ایسا کہنا قبل از وقت ہے کہ یہ سب علامتی تھا، یا اس کا زیادہ اثر نہیں ہوا۔‘‘
انہوں نے مزید کہا: ’’جو بات درحقیقت اہمیت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ آیا وہ تینوں مرحلے مکمل کر سکتے ہیں یعنی علاقے کو خالی کروانا، اس پر کنٹرول حاصل کرنا اور اس کو آباد کرنا۔‘‘
جنرل ڈیمپسی کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان کی فوج بدستور اس آپریشن کے پہلے مرحلے میں ہے یعنی وہ علاقے سے شدت پسندوں کا صفایا کر رہی ہے۔ ان کے مطابق فوج کو اب یہ دکھانا ہو گا کہ وہ اس علاقے کو سنبھال سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کے بعد پاکستان کے لیے اس علاقے میں قانون کی حکمرانی کو بحال کرنا اہم ہو گا۔
خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق امریکی حکام طویل عرصے سے شمالی وزیرستان میں کارروائی کے لیے پاکستان پر دباؤ ڈالتے رہے ہیں۔ یہ علاقہ دہشت گرد گروہوں پاکستانی طالبان، القاعدہ اور حقانی نیٹ ورک سمیت شدت پسند گروپوں کی پناہ گاہ رہا ہے۔
حقانی نیٹ ورک نے سرحد پار افغانستان میں امریکی، افغان اور اتحادی فورسز پر حملوں کے لیے اس علاقے کو اپنے اڈے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ پاکستانی فوج نے اس علاقے میں رواں برس جون میں آپریشن شروع کیا تھا۔ تاہم یہ سوال اٹھائے جاتے رہے ہیں کہ آیا فوج حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کرے گی اور ابتدائی فضائی کارروائی کہیں عام شہریوں کے ساتھ شدت پسندوں کو بھی بھاگنے کا موقع دینے کا حربہ تو نہیں تھی۔