1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان سابق 'دشمنوں' سے تعلقات استوار کرنے کے خواہاں

14 دسمبر 2021

طالبان کے ایک اعلیٰ رہنما کا کہنا ہے کہ افغانستان کی نئی حکومت خواتین کی تعلیم اور ملازمت کے حوالے سے حالات کو بہتر بنانے کی کوشش کررہی ہے۔ انہوں نے تمام ممالک سے اپیل کی کہ وہ پریشان حال لاکھوں افغان عوام کی مدد کریں۔

https://p.dw.com/p/44Dwx
Afghanistan Kabul | Mawlawi Amir Khan Muttaqi, Außenminister Übergangsregierung
تصویر: Bilal Guler/Anadolu Agency/picture alliance

طالبان حکومت کے عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی نے خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹیڈ پریس (اے پی) کے ساتھ خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ طالبان حکومت تمام ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کی خواہاں ہے اور امریکا کے ساتھ بھی اسے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ انہوں نے واشنگٹن سے 10ارب ڈالر کے اس منجمد اثاثے کوجاری کرنے کی اپیل کی جسے اگست میں طالبان کے افغانستان پر قبضہ کرلینے کے بعد امریکا نے منجمد کردیے تھے۔

کابل میں وزارت خارجہ کے عمارت میں انٹرویو کے دوران امیر خان متقی نے پشتو میں کہا، "افغانستان کے خلاف پابندیاں عائد کرنے سے کسی کو بھی فائدہ نہیں پہنچے گا۔ افغانستان کو غیر مستحکم کرنا یا افغان حکومت کو کمزور کرنا کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہے۔"

وائٹ ہاوس کی پریس سکریٹری جین ساکی نے پیر کے روز نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ انہیں افغانستان کے منجمد اثاثوں کے عنقریب جاری کیے جانے کی توقع نہیں ہے۔ اس رقم تک طالبان کی رسائی نہیں ہوگی۔ یہ رقم امریکا میں نائن الیون حملوں کے متاثرین کی طرف سے معاوضے کے دعووں سے مربوط ہے۔ یہ حملے القاعدہ نے کیے تھے اور ان کی منصوبہ بندی افغانستان میں طالبان کے دور حکومت میں ہوئی تھی۔

Afghanistan Symbolbild Bildung Frauen
افغانستان میں بارہویں جماعت تک کی لڑکیاں اسکول جا رہی ہیںتصویر: Bulent Kilic/AFP

'طالبان کے سابقہ دور اقتدار سے سبق سیکھ لیا ہے'

امیر خان متقی نے تسلیم کیا کہ لڑکیوں اور خواتین پر تعلیم اور ملازمت کے سلسلے میں طالبان کی جانب سے عائد پابندیوں سے دنیا ناراض ہے۔ انہوں نے تاہم کہا کہ افغانستان کے نئے حکمران اصولی طور پر لڑکیوں کی تعلیم اور خواتین کی ملازمت کے حامی ہیں۔ اور انھوں نے گزشتہ دورِ اقتدار سے سبق سیکھ لیا ہے۔

واضح رہے کہ طالبان نے جب سے افغانستان کا کنٹرول سنبھالا تو کئی علاقوں میں ساتویں سے بارہویں جماعت تک کی لڑکیوں کو اسکول جانے سے روک دیا گیا۔ جب کہ سرکاری ملازمت کرنے والی کئی خواتین سے کہا گیا کہ وہ گھر ہی پر رہیں اور دفاتر کا رخ نہ کریں۔

طالبان کے وزیر خارجہ نے یہ بات تسلیم کی کہ لڑکیوں کی تعلیم اور خواتین کو کام کرنے کے حوالے سے رکاوٹیں درپیش ہیں۔ تاہم کہا کہ اس ضمن میں طالبان صورتِ حال کو بہتر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی قوانین کے مطابق خواتین کے لیے تعلیم اور ملازمت کے لیے علیحدہ مقامات اور ماحول کا بندوبست کرنا ہوگا جس کے لیے انھیں وقت درکار ہے۔

امیر خان متقی نے کہا کہ خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم اور ملازمت کے حوالے سے کافی پیش رفت ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان کی نئی حکومت میں 34 صوبوں میں سے 10 میں بارہویں جماعت تک کی لڑکیاں اسکول جا رہی ہیں جب کہ نجی اسکول اور جامعات کسی رکاوٹ کے بغیر کام کر رہی ہیں۔ شعبہ صحت میں 100 فی صد خواتین، جو پہلے بھی کام کیا کرتی تھیں، اب بھی کام پر جاتی ہیں۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اصولی طور پر طالبان خواتین کی شرکت کے حامی ہیں۔

Doha Katar | Michael R. Pompeo treffen mit Taliban Offiziellen
طالبان حکومت کے عبوری وزیر خارجہ نے کہا کہ طالبان کی حکمرانی والا افغانستان خود امریکا کے اپنے مفاد میں ہےتصویر: U.S. Department of State/AA/picture alliance

امریکا سے کوئی دشمنی نہیں

طالبان حکومت کے عبوری وزیر خارجہ نے کہا کہ انتظامی امور، سیاسی معاملات اور دیگر ممالک سے تعلقات میں سفارت کاری اور روابط استوار کرنے کے اعتبار سے طالبان نے پیش رفت کی ہے۔

امیر خان متقی نے طالبان کی حکومت کی پالیسی کے حوالے سے کہا کہ ان کی حکومت تمام ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کرنے کی خواہاں ہے۔ امریکا کے ساتھ بھی کوئی تنازع نہیں ہے۔

طالبان رہنما نے امید ظاہر کی کہ وقت گزرنے کے ساتھ " امریکا دھیرے دھیرے افغانستان کے حوالے سے اپنی پالیسیاں تبدیل کرلے گا "کیونکہ اسے اس بات کا بھرپور اندازہ ہے کہ طالبان کی حکمرانی والا افغانستان خود امریکا کے اپنے مفاد میں ہے۔"

انہوں نے کہا،" امریکا اور امریکی قوم سے میرا کہنا ہے کہ آپ ایک بڑے اورعظیم ملک ہیں۔ آپ کو زیادہ صبر و تحمل سے کام لینا چاہئے اور افغانستان کے حوالے سے فراخ دلی کے ساتھ پالیسیاں بنانی چاہئے۔ آپ کو اختلافات ختم کرنے چاہئیں اور افغانستان کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے چاہئیں۔"

A man pulls a girl to get inside Hamid Karzai International Airport in Kabul
طالبان کا کہنا تھا کہ اگست میں خوف کی وجہ سے نہیں بلکہ بہتر زندگی کے خواب نے ہزاروں افغان شہریوں کو کابل کے ہوائی اڈے کی جانب بھاگنے پر مجبور کیا تھاتصویر: REUTERS

'مخالفین کے خلاف کوئی انتقامی کارروائی نہیں'

امیر خان متقی نے دعویٰ کیا کہ طالبان نے اپنے مخالفین کو ہدف نہیں بنایا۔ اس کے برعکس طالبان نے اقتدار میں آتے ہی عام معافی کا اعلان کیا اور مخالفین سمیت سب کو تحفظ کا یقین دلایا۔انھوں نے کہا کہ گزشتہ حکومت سے تعلق رکھنے والے رہنما کابل میں بغیر کسی خوف کے رہتے ہیں جب کہ بیشتر ملک سے فرار ہو چکے ہیں۔

طالبان رہنما کا کہنا تھا کہ رواں برس اگست کے وسط میں خوف کی وجہ سے نہیں بلکہ غربت سے نکلنے کی خواہش اور بہتر زندگی کے خواب نے ہزاروں افغان شہریوں کو کابل کے ہوائی اڈے کی جانب بھاگنے پر مجبور کیا تھا۔

انہوں نے تسلیم کیاکہ طالبان نے اگست میں افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد اولین مہینوں میں کچھ غلطیاں کیں۔ تاہم کہاکہ وہ ایسی اصلاحات پر کام جاری رکھیں گے جس سے قوم کا فائدہ ہو۔ حالانکہ انہوں نے غلطیوں یا ممکنہ اصلاحات کی تفصیل نہیں بتائی۔

طالبان حکومت کے وزیر خارجہ نے امریکی فوج کے اعلیٰ سربراہ جنرل فرینک میکنزی کے ان خدشات کو مسترد کردیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ القاعدہ افغانستان میں مضبوط ہو رہی ہے۔ "بدقسمتی سے اسلامی امارت افغانستان کے خلاف ہمیشہ الزامات ہی عائد کیے جاتے ہیں لیکن ان کا کوئی ثبوت نہیں دیا جاتا۔ اگر میکنزی کے پاس کوئی ثبوت ہے تو اسے پیش کریں۔ میں پورے اعتماد کے ساتھ کہتا ہوں کہ یہ ایک بے بنیاد الزام ہے۔"

ج ا/ ص ز  (اے پی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں