طالبان اور افغان حکومت کے مذاکرات
22 اکتوبر 2008سعودی عرب کے وزیر خارجہ کے بعد اب افغان وزیر خارجہ نے بھی افغان حکومت اور طالبان رہنماوں کے درمیان سعودی عرب میں بات چیت کے ایک غیر رسمی دور سے متعلق خبروں کی تصدیق کردی ہے۔
پاکستان کے دورے پر آئے ہوے افغان وزیر خارجہ رنگین داد فر سپنتا نے کہا کہ طالبان سے مفاہمتی عمل صرف اس صورت میں آگے بڑھ سکتا ہے کہ اگر وہ ہتھیار چھوڑ کر امن سے رہیں اور حکومتی عملداری کو تسلیم کریں۔
پاکستانی دارلحکومت اسلام آباد میں، اپنے پاکستانی ہم منصب شاہ محمود قریشی کے ساتھ ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران، سپنتا نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی زیادہ تفصیلات بتانے سے گریز کیا۔انکا کہنا تھا کہ ابھی معاملات ابتدائی مرحلہ میں ہے۔
پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے بقول انہیں آج، افغان وزیر خارجہ نے افغان حکومت اور طالبان کے رہنماوں کے بیچ سعودی عرب میں ملاقات سے متعلق بتایا ہے۔
کل سعودی وزیر خارجہ شہزارہ سعود الفیصل نے کہا تھا کہ اگر افغان اپنے معاملات کو بات چیت سے حل کرنا چاہتے ہیں، جو انکے بقول سعودی عرب کی بھی خواہش ہے تو پھر سعودی عرب مصالحتی کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔
سعودی شہزادے کا کہنا تھا کہ اگر سعودی عرب نے محسوس کیا کہ فریقین مذاکرات کے ذریعے معاملات کے حل میں دلچسپی نہیں رکھتے تو انکے بیچ مصالحت کرانا بہت مشکل ہوجائے گا۔
یہ خبریں گذشتہ کچھ عرصے سےگردش میں تھیں کہ مکہ مکرمہ میں تین روز جاری رہنے والے مجوزہ مذاکرات میں افغان پارلیمان کے ڈپٹی اسپیکر عارف نورزئی نے افغان حکومت جبکہ ملا محمد طیب آغا نے طالبان کی نمائندگی کی تھی۔بعض آزاد ذرائع سابق پاکستانی وزیر اعظم نوازشریف، افغان رہنماء گلبدین حکمت یار کی بھی اس مذاکراتی سلسلے میں موجودگی کا دعویٰ کر رہے ہیں۔
یاد رہے کہ افغان صدر حامد کرزئی متعدد بار طالبان عسکریت پسندوں کو مذاکرات کی دعوت دے چکے ہیں تاہم طالبان ہر بار یہ موقف اختیار کرکے مذاکرات سے انکاری ہوجاتے ہیں کہ موجودہ افغان حکومت امریکہ کی کٹھ پتلی ہے اور اس کے پاس کوئی اختیار نہیں۔ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ طالبان کو افغان حکومت میں شمولیت کی مشروط پیش کش ہو چکی ہیں جس میں ان سے القاعدہ سے تعلقات ختم کرنے سمیت متعدد مطالبات کئے گئے ہیں۔
بدھ کے روز افغان اور پاکستانی وزیر خارجہ کی ملاقات کے دوران پاک افغان امن جرگہ 27اکتوبر کو اسلام آباد میں منعقد کرانے کا فیصلہ بھی کیا گیا جس میں دونوں اطراف کے سینکڑوں پشتون رہنماء اور حکومتی عہدیداران شرکت کریں گے۔