طالبان حملے کے چھ ماہ بعد خواتین کا ریڈیو بحال
8 مارچ 2016زرغونہ حسن شروع ہی سے خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم رہی ہیں اور انہوں نے قندوز میں خواتین کی آگاہی کے لیے ایک ریڈیو اسٹیشن قائم کر رکھا ہے۔ گزشتہ برس تک شمالی افغانستان میں اس ریڈیو کے سامعین کی تعداد کئی ہزار تک پہنچ چکی تھی۔ اس علاقے میں خواتین کی بڑی تعداد اپنے گھروں تک محدود رہتی ہے اور وہ ناخواندہ بھی ہے۔
’ریڈیو شائستہ‘ کی نشریات کا مقصد مقامی خواتین کو ان کے حقوق، ممنوعہ سمجھے جانے والے موضوعات، صحت اور گھریلو تشدد سے متعلق آگاہی فراہم کرنا ہے۔ اس ریڈیو کا ایک پروگرام نام ’’ناپسندیدہ روایات‘‘ ہے۔ اس پروگرام میں افغانستان کی پرانی روایات کا تنقیدی جائزہ لیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر کم عمر لڑکیوں کی جبری شادیاں اور اسے سے پیدا ہونے والے مسائل کو کیسے حل کیا جائے، ایسے موضوعات شامل ہوتے ہیں۔ اسی طرح ان خواتین کے خصوصی انٹرویوز بھی شامل کیے جاتے ہیں، جو تعلیم حاصل کرنے کے بعد معاشرے میں اپنا مقام بنانے میں کامیاب ہوئی ہیں، سیاست میں آئی ہیں یا پھر خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم ہیں۔
زرغونہ حسن کا نیوز ایجنسی اے پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’خواتین کی زندگی پر اثر پڑا ہے، ہم خواتین کے حقوق کے بارے میں آگاہی فراہم کر رہے ہیں کہ وہ اپنی زندگی میں کیا حاصل کر سکتی ہیں۔ خواتین کا حوصلہ بڑھایا جاتا ہے کہ وہ سیاست میں حصہ لیں، اپنا ووٹ ڈالیں اور صوبائی کونسل کے انتخابات میں حصہ لیں۔‘‘
اس ریڈیو اسٹیشن کے پروگراموں کے ذریعے پندرہ سالہ جنگ کے خاتمے کے لیے بھی خواتین کو اپنا کردار ادا کرنے کا کہا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے بھائیوں اور بیٹوں کو ہتھیار نہ اٹھانے پر قائل کریں۔
ریڈیو ابھی تک افغانستان میں معلومات پہنچانے کا ایک موثر ذریعہ ہے۔ اس ملک میں تعلیم کی شرح چالیس فیصد سے بھی کم ہے اور زیادہ تر آبادی دیہی اور دور دراز کے علاقوں میں رہتی ہے۔ ایسے علاقوں میں بجلی کی فراہمی نہ ہونے کے برابر ہے اور بغیر بیٹریز کے چلنے والے ونڈ اپ ریڈیو انتہائی مقبول ہیں۔
شمالی افغانستان میں صرف پندرہ فیصد خواتین پڑھنا اور لکھنا جانتی ہیں جب کہ ان کے لیے ریڈیو بیرونی دنیا کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کا نایاب ذریعہ ہے۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی منصوبے کے مطابق شائستہ ریڈیو کی نشریات آٹھ لاکھ افراد تک پہنچتی ہیں۔