طالبان سے رابطے: اسلام آباد پھر الزامات کی زد میں
21 جون 2010رینڈ کارپوریشن نامی اس تھنک ٹینک کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کے عسکریت پسندوں کے ساتھ یہ روابط اسلام آباد کی جمہوری حکومت اور واشنگٹن دونوں کے لئے ہی نقصان دہ ہیں۔اس تھنک ٹینک کا دعویٰ ہے کہ امریکہ میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے کے منصوبوں کے تانے بانے پاکستان سے جا کر ملتے ہیں۔ اِن منصوبوں کا پاکستان سے جڑنا کسی حد تک اسلام آباد کی امریکی نواز حکومت کی اُس غلط حکمتِ عملی کی وجہ سے ہے، جو ملک میں عسکریت پسندوں کے اثر و رسوخ کو توڑنے میں ناکام ہوچکی ہے۔
رینڈ کارپوریشن کا کہنا ہے کہ ٹائم اسکوائرپردہشت گردی کی ناکام کوشش اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ کس طرح عسکریت پسند تنظیمیں، پاکستانی حکومت کی غیر محسوس مدد کے ساتھ، دہشت گردی کو برآمد کرسکتی ہیں۔
پیرکو جاری ہونے والی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ واشنگٹن پاکستان کو اربوں ڈالر کی امداد دے چکا ہے لیکن اس امداد کے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوئے۔ رپورٹ کے مصنفین Seth Jones اور C. Christine Fair نے امریکی حکومت پر ضرور دیا ہے کہ پاکستان کو دی جانے والی امداد کو دہشت گردی کے خلاف موثر اقدامات اٹھائے جانے سے مشروط کیا جائے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نہ ہی امریکہ پاکستان کو عسکریت پسندوں سے رابطے منقطع کرا نے میں کامیاب ہوسکا اور نہ اسلام آباد طالبان عسکریت پسندوں کے خلاف ایک سال سے کی جانے والی ملٹری کارروائیوں میں کامیاب ہوسکا۔
جونز اور فئیر کے مطابق پاکستان نے ایک طرف کچھ دہشت گردوں کو گرفتار کر کے امریکہ کی مدد کی لیکن دوسری طرف امریکی مفادات کو ضرب بھی پہنچائی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں امریکہ مخالف جذبات اپنے عروج پر ہیں اور عسکریت پسندوں کے خلاف حکومتی کارروائیوں کو بہت کم عوامی حمایت حاصل ہے۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستانی رہنماؤں کو شک ہے کہ امریکہ اسلام آباد کی مدد کرنے میں مخلص نہیں اور یہ کہ واشنگٹن کے کچھ چھپے ہوئے مقاصد ہیں۔
رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ امریکہ افغانستان میں طالبان کے خلاف لڑی جانے والی جنگ میں پاکستان پر اپنا انحصار جس حد تک ممکن ہو کم کرے اور جنگ زدہ افغانستان میں سامان بھیجنے کے لئے دوسرے متبادل زمینی راستے تلاش کرے۔ مصنیفین کا کہنا ہے کہ ایک زمینی راستہ ایران بھی ہوسکتا ہے۔
رپورٹ: عبدالستار
ادارت: عاطف توقیر