1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان سے مذاکرات، کابل اور واشنگٹن کے مختلف راستے

25 مارچ 2010

افغان حکومت اور طالبان کے خفیہ مذاکرات کی خبریں گزشتہ کچھ عرصے سے گردش کر رہی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ کابل حکومت طالبان عسکریت پسندوں سے بات چیت کی خواہاں ہے۔

https://p.dw.com/p/McFr
تصویر: dpa

افغان حکومت کی اِس خواہش کے برعکس بدھ کوامریکی وزیرِ دفاع رابرٹ گیٹس کی طرف سے یہ پیغام آیا کہ طالبان سے بات چیت کے لئے یہ وقت مناسب نہیں ہے۔ کانگریس کی ایک کمیٹی کے سامنے بیان دیتے ہوئے رابرٹ گیٹس نے کہا کہ مذاکرات سے پہلے طالبان کی عسکری قوت کو کمزور کرنا ضروری ہے اور ابھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ عسکری طور پر کمزور ہیں۔

ان کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب افغانستان میں مصالحت کے عمل کے کچھ آثار نظرآرہے ہیں۔ افغانستان کے مشرقی اور شمال مشرقی صوبوں میں اتحادی افواج کے خلاف بر سرِ پیکار حزبِ اسلامی کے نمائندے محمد داؤد عابدی نے جمعرات کو کابل میں اقوامِ متحدہ کے نمائندے Staffan de Mistura سے ملاقات کی ہے۔

Robert Gates
رابرٹ گیٹس مذاکرات سے پہلے طالبان کی عسکری قوت کو توڑنا چاہتے ہیںتصویر: AP

عابدی نے بدھ کو اس بات کا اشارہ دیا تھا کہ اگر واشنگٹن اپنی فوجیں واپس بلانے کا وعدہ پورا کرتا ہے تو حزبِ اسلامی امن مذاکرات کے لئے تیار ہے اور یہ کہ وہ طالبان اور اتحادی افواج کے درمیان ایک پل کا کردار بھی ادا کرسکتی ہے۔

لیکن رابرٹ گیٹس کے بیان سے ایسا لگتا ہے کہ واشنگٹن تمام عسکری ذرائع استعمال کرنے کے بات مذاکرات کی طرف آئے گا اور اس کا اشارہ امریکی فوج کے سربراہ مائیک ملن کے اس بیان سے بھی ملتا ہے جسمیں انہوں نے یہ کہا ہے کہ امریکی جنگی کوششوں کا فوری طور پر ختم ہونے کا کوئی امکان نہیں۔

کیا امریکی عہدیداروں کے یہ بیانات اورافغان حکومت کے طالبان اور دوسرے عسکریت پسند گروپوں سے رابطے واشنگٹن اور کابل کے درمیان کسی اختلاف کا مظہر ہیں۔ کراچی یونیورسٹی کے پاکستان اسسٹیدیز سینٹر سے وابستہ ڈاکڑ جعفر احمد کا اس حوالے سے کہنا ہے۔ " مجھے کابل اور واشنگٹن کے درمیان اس حوالے سے کوئی اختلاف نظر نہیں آتا۔ رابرٹ گیٹس یہ چاہتے ہیں کہ جب طالبان سے ان کی بلواسطہ یا بلا واسطہ بات چیت شروع ، تو واشنگٹن کی اُس وقت مضبوط پوزیشن ہو اور طالبان کی کمزور۔"

Der afghanische Präsident Hamid Karzai
کرزئی حکومت طالبان سے بات چیت کی خواہاں ہےتصویر: picture-alliance/dpa

ڈاکڑ جعفر کا کہنا تھا کہ طالبان کی عسکری قوت کو توڑنے کے لئے امریکہ ڈرون حملوں میں اضافہ کرے گا۔ "بات چیت کے حتمی مرحلے سے پہلے امریکہ ڈرون حملوں میں اضافہ کرے گا اور پاکستان پر دباؤ ڈالے گا کہ اسلام آباد طالبان کو کمزور کرنے میں امریکہ کا ساتھ دے اور جو صورتحال بن رہی ہے، اس میں پاکستان اس بات پر مجبور ہوگا کہ وہ واشنگٹن کے ساتھ تعاون کرے۔"

ڈاکڑجعفرکا کہنا تھا کہ طالبان سے بات چیت کی صورت میں پاکستان بہت اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ "پاکستان کی اس وقت پوزیشن یہ ہے کہ وہ طالبان سے رابطے میں ہے اور رابطہ رکھ سکتا ہے۔ پاکستان طالبان پر کسی نہ کسی طرح اثر انداز بھی ہوسکتا ہے۔ لہذا امریکہ اگر افغانستان میں اپنی منشاء کے مطابق معاملات حل کرنے چاہتا ہے، تو اُسے پاکستان پر انحصار کرنا پڑے گا۔"

ڈاکٹرجعفراحمد سمیت کئی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ امریکی اور اتحادی افواج کے انخلاء کے بعد بھارت، پاکستان اورایران سمیت خطے کے دیگر ممالک کو افغانستان میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہیئے اور افغانوں کو اپنے معاملات خود حل کرنے کی کوششیں کرنی چاہیں۔

رپورٹ: عبدالستار

ادارت: کشورمصطفیٰ