طالبان قیادت کے لئے بیرونی ملک سیاسی پناہ
10 مئی 2010رواں ماہ کے اواخر میں روایتی جرگہ منعقد کیا جائے گا جس میں کابل حکومت کے مصالحتی منصوبے سے متعلق افغان عمائدین کو اعتماد میں لیا جائے گا۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے جرگہ میں پیش کی جانی والی دستاویز کا متن دیکھنے کا دعویٰ کیا ہے۔
روئٹرز کے مطابق اس میں لکھا ہے کہ :’’ ہم جنگ اور نقاق سے بیزار آچکے ہیں، ہم نے بہت آنسو بہائے ہیں، آؤ آپس میں اتفاق پیدا کریں اور استحکام و خوشحالی کی جاب بڑھیں جو طویل عرصے سے ہم سے دور ہے‘‘۔
کابل میں گزشتہ روز ایسے سینکڑوں افغان خواتین و حضرات کا جرگہ منعقد ہوا جنہوں نے یا تو اپنے عزیز بدامنی میں کھوئے یا خود زخمی ہوئے۔ ان افراد نے حکومت پر طالبان عسکریت پسندوں سے مفاہمت اور قیام امن کا مطالبہ کیا۔
امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ طالبان کی اعلیٰ قیادت کو القاعدہ سے رابطے منقطع کرنے، مسلح جدوجہد ترک کرنے کے بدلے میں سعودی عرب میں پناہ، سیاسی نظام میں شمولیت کی اجازت سمیت دیگر پیش کشیں کی جاسکتی ہے۔
سعودی عرب پہلے بھی طالبان اور افغان حکام کے درمیان مصالحت کی کوششوں میں شریک رہا ہے۔ مفاہمتی عمل کے پہلے حصے میں ان جنگجؤوں اور مقامی کمانڈروں کو پہلے قومی دھارے میں شامل کرنے کی کوشش کی جائے گی جو براہ راست افغان اور غیر ملکی فوجی دستوں پر حملوں میں ملوث ہیں بعد میں ان کی اعلیٰ قیادت کو مائل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ افغانستان کے لئے امداد فراہم کرنے والے ممالک نے اس منصوبے کے لئے 160 ملین ڈالر فراہم کرنے کا وعدہ کررکھا ہے۔
افغان صدر حامد کرزئی چار روزہ دورے پر امریکہ روانہ ہوگئے ہیں جہاں عسکریت پسندوں کے ساتھ بات چیت کے اسی منصوبے کے پہلووں پر بھی غور ہوگا۔ افغانستان کے امریکہ کے ایک لاکھ چالیس ہزار فوجی متعین ہیں۔ اوباما انتظامیہ کابل حکومت کے ‘امن منصوبے‘ کے حوالے سے خاصی ہوشیار ہے اور کسی فوری مثبت نتیجے کی امید نہیں رکھتی۔
طالبان ماضی میں متعدد بار مصالحت کی پیش کش ٹھکراچکے ہیں اور غیر ملکی افواج کی افغانستان سے واپسی کے مطالبے پر قائم ہیں۔ حالیہ دنوں میں البتہ بعض جنجگو دھڑوں نے کابل حکومت سے رابطے کئے ہیں۔
رپورٹ : شادی خان سیف
ادارت : عاطف بلوچ