1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان پر قابو پانے کے لیے ’ریڈیو پروگراموں کا ہتھیار‘

25 ستمبر 2012

پاکستان کے شمال مغربی علاقوں میں طالبان کے اثر و رسوخ پر قابو پانے کے لے ریڈیو پروگراموں کا سہارا بھی لیا جا رہا ہے، جن میں دہشت گردی سے متاثرہ خاندانوں کی خواتین اور مذہبی رہنماؤں کو شامل کیا جاتا ہے۔

https://p.dw.com/p/16DYM
تصویر: AP

ایسے ہی ایک پروگرام میں ایک کہانی زیارت بی بی کی پیش کی گئی۔ انہوں نے دھیمے لہجے میں وہ الفاظ دہرائے جو انہوں نے اپنے بیٹے سے آخری مرتبہ کہے تھے۔ اس موقع پر ان کا درد جیسے ریڈیو اسٹوڈیو میں سما گیا ہو۔

زیارت بی بی کا کہنا تھا: ’’وہ اپنے امتحانات کی تیاری کر رہا تھا۔ میں نے اس سے کتابیں اٹھانے کے لیے کہا تھا۔ ‘‘

تاہم ان کا بیٹا اپنے امتحانات سے پہلے ہی طالبان کے ایک بم حملے میں ہلاک ہو گیا تھا اور اس وقت سے وہ اپنے بیٹے کی کتابوں کو پھر کبھی نہیں چھو پائی۔

بی بی جیسی متعدد ایسی خواتین پشتو زبان کے اس ریڈیو پروگرام میں اپنی درد بھری داستانیں بیان کر رہی ہیں۔

سرکاری ریڈیو پر پیش کیے جانے والے اس ریڈیو شو کا مقصد طالبان کا گڑھ تصور کیے جانے والے علاقوں میں ان کے لیے حمایت کو کم کرنا ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ نااہل اور بدعنوان کے طور پر تمسخر کا نشانہ بننے والی پاکستان کی کمزور سویلین حکومت شدت پسندی کو مات دینے کی کوشش کر رہی ہے اور بڑی حد تک دِلوں کو جیتنے اور رائے عامہ کو اپنے حق میں کرنے میں ناکام ہو رہی ہے۔

Bombenanschlag auf einen Bus in Pakistan
ان ریڈیو پروگراموں میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے متاثرین کو بھی مدعو کیا جاتا ہےتصویر: picture-alliance/Zuma Press

سرکاری ریڈیو برسوں تک وزیر اعظم کی مصروفیات سے متعلق خشک معلومات فراہم کرتا رہا ہے جبکہ اس عرصے میں طالبان اپنے زیر انتظام درجنوں ایم ایف اسٹیشنوں کے ذریعے اپنی ہِٹ لسٹوں کے اعلان کے ساتھ لوگوں کو بھرتیوں کے لیے اکساتے رہے ہیں۔

شدت پسندوں کے اس پروپیگنڈے کی کامیابی پر تشویش نے پاکستانی صحافی امتیاز گُل کو یہ فیصلہ کرنے پر مجبور کیا کہ وہ کچھ نیا کرنے کی کوشش کریں، یعنی رپورٹوں اور براہ راست نشر کیے جانے والے مباحثوں پر مشتمل پروگرام، جو لوگوں کو شدت پسندی پر تنقیدی طریقے سے سوچنے پر تیار کریں ۔

اس مقصد کے لیے ان کے ایک شو کا نام ’سَحر‘ اور دوسرے کا ’امن کی آواز‘ ہے۔ ان کا دورانیہ ایک گھنٹہ ہے۔ امریکا اور جاپان کی مالی معاونت سے ریڈیو پاکستان کو ملنے والے نئے ٹرانسمیٹروں کی مدد سے یہ پروگرام قبائلی علاقوں میں زیادہ دُور تک نشر کیے جا سکیں گے۔

ان پروگراموں میں شامل کیے گئے حالیہ موضوعات میں ان باتوں پر بات چیت کی گئی کہ القاعدہ کے ارکان آپ کے دروازے پر آ کھڑے ہوں تو آپ کا ردِ عمل کیا ہو چانا چاہیے اور کیا سی آئی اے کی جانب سے چلائی گئی پولیو مہم اور مسلمانوں کے قتل کے لیے خود کُش دھماکے جائز ہیں۔

ان میں قبائلی سرداروں، مذہبی رہنماؤں، کارکنوں اور حکومتی اہلکاروں کو بحث کے لیے مدعو کیا جاتا ہے جبکہ سامعین فون کے ذریعے بحث میں شامل ہو سکتے ہیں۔

امتیاز گُل کا کہنا ہے: ’’دہشت گردی کی لہر نے لوگوں کو خاموش رہنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اس معاشرے میں سوال پوچھنے کے لیے آپ کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔‘‘

ng / ai (Reuters)