طالبان پر قابو پانے کے لیے ’ریڈیو پروگراموں کا ہتھیار‘
25 ستمبر 2012ایسے ہی ایک پروگرام میں ایک کہانی زیارت بی بی کی پیش کی گئی۔ انہوں نے دھیمے لہجے میں وہ الفاظ دہرائے جو انہوں نے اپنے بیٹے سے آخری مرتبہ کہے تھے۔ اس موقع پر ان کا درد جیسے ریڈیو اسٹوڈیو میں سما گیا ہو۔
زیارت بی بی کا کہنا تھا: ’’وہ اپنے امتحانات کی تیاری کر رہا تھا۔ میں نے اس سے کتابیں اٹھانے کے لیے کہا تھا۔ ‘‘
تاہم ان کا بیٹا اپنے امتحانات سے پہلے ہی طالبان کے ایک بم حملے میں ہلاک ہو گیا تھا اور اس وقت سے وہ اپنے بیٹے کی کتابوں کو پھر کبھی نہیں چھو پائی۔
بی بی جیسی متعدد ایسی خواتین پشتو زبان کے اس ریڈیو پروگرام میں اپنی درد بھری داستانیں بیان کر رہی ہیں۔
سرکاری ریڈیو پر پیش کیے جانے والے اس ریڈیو شو کا مقصد طالبان کا گڑھ تصور کیے جانے والے علاقوں میں ان کے لیے حمایت کو کم کرنا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ نااہل اور بدعنوان کے طور پر تمسخر کا نشانہ بننے والی پاکستان کی کمزور سویلین حکومت شدت پسندی کو مات دینے کی کوشش کر رہی ہے اور بڑی حد تک دِلوں کو جیتنے اور رائے عامہ کو اپنے حق میں کرنے میں ناکام ہو رہی ہے۔
سرکاری ریڈیو برسوں تک وزیر اعظم کی مصروفیات سے متعلق خشک معلومات فراہم کرتا رہا ہے جبکہ اس عرصے میں طالبان اپنے زیر انتظام درجنوں ایم ایف اسٹیشنوں کے ذریعے اپنی ہِٹ لسٹوں کے اعلان کے ساتھ لوگوں کو بھرتیوں کے لیے اکساتے رہے ہیں۔
شدت پسندوں کے اس پروپیگنڈے کی کامیابی پر تشویش نے پاکستانی صحافی امتیاز گُل کو یہ فیصلہ کرنے پر مجبور کیا کہ وہ کچھ نیا کرنے کی کوشش کریں، یعنی رپورٹوں اور براہ راست نشر کیے جانے والے مباحثوں پر مشتمل پروگرام، جو لوگوں کو شدت پسندی پر تنقیدی طریقے سے سوچنے پر تیار کریں ۔
اس مقصد کے لیے ان کے ایک شو کا نام ’سَحر‘ اور دوسرے کا ’امن کی آواز‘ ہے۔ ان کا دورانیہ ایک گھنٹہ ہے۔ امریکا اور جاپان کی مالی معاونت سے ریڈیو پاکستان کو ملنے والے نئے ٹرانسمیٹروں کی مدد سے یہ پروگرام قبائلی علاقوں میں زیادہ دُور تک نشر کیے جا سکیں گے۔
ان پروگراموں میں شامل کیے گئے حالیہ موضوعات میں ان باتوں پر بات چیت کی گئی کہ القاعدہ کے ارکان آپ کے دروازے پر آ کھڑے ہوں تو آپ کا ردِ عمل کیا ہو چانا چاہیے اور کیا سی آئی اے کی جانب سے چلائی گئی پولیو مہم اور مسلمانوں کے قتل کے لیے خود کُش دھماکے جائز ہیں۔
ان میں قبائلی سرداروں، مذہبی رہنماؤں، کارکنوں اور حکومتی اہلکاروں کو بحث کے لیے مدعو کیا جاتا ہے جبکہ سامعین فون کے ذریعے بحث میں شامل ہو سکتے ہیں۔
امتیاز گُل کا کہنا ہے: ’’دہشت گردی کی لہر نے لوگوں کو خاموش رہنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اس معاشرے میں سوال پوچھنے کے لیے آپ کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔‘‘
ng / ai (Reuters)