طالبان کی جانب سے جنگ بندی کی خبریں مسترد
30 دسمبر 2019افغان طالبان کی طرف سے یہ حملہ اس وقت ہوا، جب چند گھنٹے قبل ہی ایسوسی ایٹڈ پریس نے چند خفیہ ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا تھا کہ طالبان کونسل کے ممبران نے ملک بھر میں عارضی جنگ بندی پر اتفاق کر لیا ہے۔ تاہم ان خبروں کے کچھ دیر بعد ہی قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین اور افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایسی تمام خبروں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسی خبریں ان کے خلاف پروپیگنڈا پر مبنی ہیں۔ افغان طالبان اورامریکا کے درمیان افغان مفاہمتی عمل کا سلسلہ تقریبا ایک برس سے جاری ہے جبکہ فریقین کے مابین امن مذاکرات کے متعدد دور ہو چکے ہیں۔
مذکورہ بالا حملے کے حوالے سے صوبہ جوزجان کے گورنر کے ترجمان عبدالمعروف آذر نے بتایا کہ پیر کو علی الصبح کیے جانے والے اس حملے کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں میں تیرہ مقامی ملیشیا کے اراکین اور ایک پولیس اہلکار شامل ہیں۔ عبدالمعروف آذر کے مطابق پانچ دیگر جنگجو زخمی جبکہ دو لا پتہ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کمک پہنچنے کے بعد طالبان کو پسپا کر دیا گیا اور اب کمپاونڈ حکومت کے کنٹرول میں ہے۔
دریں اثنا امریکی فوج نے اپنی روزانہ کی رپورٹ میں بتایا ہے کہ افغان فورسز کے ساتھ مل کر گزشتہ رات کی جانے والی فوجی کارروائیوں میں ملک بھر میں تیس سے زائد طالبان جنگجوؤں کو ہلاک جبکہ متعدد دیگر باغیوں کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔
حالیہ کچھ عرصے سے طالبان نے شمالی افغانستان میں اپنے حملے تیز تر کر دیے ہیں۔ جمعے کے روز بھی جنوبی ہلمند کی ایک چیک پوسٹ پر حملے کے نتیجے میں کم از کم دس افغان فوجی ہلاک ہو گئے تھے جبکہ گزشتہ پیر کے روز ایک امریکی فوجی شمالی قندوز میں لڑائی کے دوران مارا گیا تھا۔
اٹھارہ سالہ افغان جنگ امریکا کی وہ طویل ترین جنگ ہے، جس میں افغان طالبان کا پلڑا بھاری ہو چکا ہے۔ نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق افغانستان کے نصف سے زائد علاقے طالبان اور داعش جنگجوؤں کے کنٹرول میں ہیں۔ اندازوں کے مطابق اس وقت افغانستان میں امریکا کے تقریبا بارہ ہزار فوجی موجود ہیں۔
ع ش / ا ا ( اے ایف پی، اے پی)