طالبان کابل کے مضافات میں بھی فعال
22 اکتوبر 2015خواجہ گھر کے مکینوں کا کہنا ہے کہ ان کے علاقے میں چلتے پھرتے کہیں بھی کسی طالبان جنگجو سے آمنا سامنا ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔ اس علاقے میں طالبان باغیوں کی موجودگی اور ان کی سرگرمیاں اس لیے غیر معمولی اہمیت کی حامل ہیں کہ افغانستان میں طالبان عسکریت پسندوں کی کابل حکومت کے خلاف بغاوت کی کوشش میں تیزی آ رہی ہے۔
طالبان کی کابل کے اتنے نزدیک موجودگی دراصل کوئی نئی بات نہیں ہے۔ کئی سالوں سے عسکریت پسند دیہ سبز کے علاقے کو حملے کرنے کے لیے استعمال میں لا رہے ہیں۔ کابل اور اُس کے ہوائی اڈے پر بھی اسی علاقے سے راکٹ داغے گئے تاہم یہ حملے غیر موثر تھے۔ تب بھی ان کا ایک مقصد ضرور پورا ہوا، وہ یہ کہ ان علاقوں کی روزمرہ زندگی میں خلل پیدا ہوا۔
گزشتہ ماہ قندوز پر طالبان کے مختصر قبضے سے یہ ظاہر ہو گیا ہے کہ افغانستان کے بڑے شہری علاقوں کی صورتحال کس حد تک نازک ہے اور وہاں طالبان کے حملوں کے امکانات کتنے زیادہ ہیں۔ قندوز پر طالبان کا مختصر قبضہ دراصل افغانستان میں طالبان کی 14 سالہ بغاوت کی تاریخ میں پہلی بار کسی صوبائی دارالحکومت پر طالبان کے قبضے کا واقعہ تھا۔
خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے ایک نامہ نگار کے کابل سے شمال مشرق کی طرف کوئی پانچ میل کے فاصلے پر ایک حالیہ دورے میں وہاں کے ایک رہائشی محمد رسول کا کہنا تھا،’’طالبان دراصل اسی جگہ سے تعلق رکھتے ہیں اور یہاں کے عوام میں ان کی خاصی حمایت پائی جاتی ہے۔‘‘
ایک کسان جو چالیس بیالیس کی عمر کا ہے اپنے بیان میں کہتا ہے ،’’وہ آکر ہمارے دروازے پر دستک دیتے ہیں، خود کو متعارف کرواتے ہیں پھر پانی اور کھانا مانگتے ہیں۔ ہم انہیں یہ سب کچھ دے دیتے ہیں۔ انہوں نے کبھی کسی کو خوفزدہ نہیں کیا اور ہمیں بھی ان سے کوئی مسئلہ نہیں ہے‘‘۔
مقامی اہلکار کابل سے اتنے نزدیک طالبان کی موجودگی کو زیادہ اجاگر نہیں کرتے اور سکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ طالبان کابل پر قبضے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ خاص طور سے کابل میں مقامی اور غیر ملکی فوج کی تعداد اور ان دستوں کا سائز طالبان کو کسی بھی قسم کی کارروائی سے روکے ہوئے ہے۔
قندوز کابل سے شمال کی طرف 230 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور وہاں کی آبادی تین لاکھ کے قریب ہے جو افغانستان کی کُل آبادی کا دسواں حصہ بنتی ہے۔
دیہ سبز کے ایک ضلعی چیف محمد گل شرافت کا کہنا ہے کہ طالبان جسمانی طور پر خود دیہ سبز میں موجود نہیں پائے جاتے مگر وہ گاہے بگاہے دوسرے علاقوں سے راکٹ لاکر اس ضلع کو راکٹوں کے ’لانچ پیڈ‘ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ تاہم شرافت نے گاؤں خواجہ گھر کے سفر سے خبر دار کیا ہے جس کے مٹی کے بنے گھر کابل کو اپنے گھیرے میں لیے ہوئے سنگلاخ پہاڑوں کے دامن میں واقع ہے۔