1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’طالبان کو تعلیم ہی شکست دے سکتی ہے‘، اسکولوں کی تعمیر نو

افسر اعوان2 مارچ 2016

’’ہم اپنے اسکول کی تعمیر نو پر بہت خوش ہیں۔ طالبان نے اسے 2013ء میں تباہ کر دیا تھا اور ہم بغیر چھت کے تعلیم حاصل کرنے پر مجبور تھے۔‘‘ یہ کہنا ہے شمالی وزیرستان کے ایک مڈل اسکول میں آٹھویں کلاس کی طالبہ مجاہدہ بی بی کا۔

https://p.dw.com/p/1I5Jy
تصویر: picture-alliance/AP

پاکستانی وفاق کے زیر انتظام ملک کے شمال مغربی قبائلی علاقوں میں شمالی وزیرستان ایجنسی بھی شامل ہے۔ ’فیڈرلی ایڈمنسٹرڈ ٹرائبل ایریاز‘ یا FATA سات مختلف اضلاع یا ایجنسیوں پر مشتمل ہے۔ شمالی وزیرستان شدت پسند کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کا ہیڈکوارٹر رہا ہے۔ پاکستانی فوج کی طرف سے شدت پسندوں کے خلاف جون 2014ء میں شروع کیے جانے والے آپریشن ’ضرب عضب‘ کے نتیجے میں اس علاقے کو طالبان سے صاف کر دیا گیا ہے اور یہاں معمولات زندگی تیزی سے معمول پر آ رہے ہیں۔

شمالی وزیرستان کی مجاہدہ بی بی کی طرح جنوبی وزیرستان کا 16 سالہ عبدالقدیم بھی اپنے نئے اسکول میں تعلیم حاصل کر رہا ہے۔ نیوز ایجنسی آئی پی ایس سے گفتگو کرتے ہوئے عبدالقدیم کا کہنا تھا، ’’طالبان نے ہمارے اسکول کو 2012ء میں تباہ کر دیا تھا۔ اس کے بعد امیر طالب علم تو دیگر محفوظ علاقوں میں منتقل ہو گئے تاکہ وہ اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں جبکہ میرے جیسے غریب طلبہ کو تین برس تک بغیر چھت کے تعلیم حاصل کرنا پڑی۔‘‘ نویں جماعت کے اس طالب علم کے مطابق، ’’اس اسکول کی تعمیر نو تین ماہ قبل ہی مکمل ہوئی ہے اور اب طلبہ اپنی تعلیم کے بارے میں پُر جوش ہیں۔‘‘

اسکولوں کی تباہی کے بعد طلبہ و طالبات کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کرنے پر مجبور تھے
اسکولوں کی تباہی کے بعد طلبہ و طالبات کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کرنے پر مجبور تھےتصویر: Reuters/Parwiz

امریکا کی طرف سے افغانستان میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد افغان سرحد کے قریب پاکستانی قبائلی علاقے 2002ء سے عسکریت پسندی کا گڑھ بنے ہوئے تھے۔ 2005ء کے بعد سے ان عسکریت پسندوں نے نہ صرف فاٹا بلکہ صوبہ خیبر پختونخوا کے دیگر علاقوں میں بھی حکومتی عمارات، اسکولوں، ہسپتالوں اور دفاتر کو نشانہ بنانا شروع کر دیا تھا۔

تاہم پاکستانی فوج کے ہاتھوں طالبان کی شکست کے بعد اسکولوں کی تعمیر نو کا کام شروع کیا گیا۔ طالبان نے کُل 750 اسکولوں کو تباہ کیا۔ ان میں سے 500 اسکول فاٹا میں جبکہ متصل صوبے خیبرپختونخوا کے دیگر علاقوں میں 250 اسکولوں کو نقصان پہنچایا گیا۔ اب تک ان تباہ شدہ اسکولوں میں سے قریب 17 فیصد کو دوبارہ تعمیر کیا جا چکا ہے۔ یہ کام زیادہ تر امدادی ایجنسیوں کے مالی تعاون سے مکمل کیا گیا ہے۔ ایک ایجوکیشن آفیسر جاوید شاہ نے آئی پی ایس کو بتایا، ’’ہم نے اسکولوں کی حفاظت کے لیے پیراملٹری فورسز کے 10 ہزار اہلکار تعینات کیے ہیں۔‘‘

جاوید شاہ کے مطابق مقامی عمائدین اور حکام پر مشتمل کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں، جو ان اسکولوں کی سکیورٹی کو یقینی بنائیں گی: ’’ان کمیٹیوں نے مقامی لوگوں کو چوکیداری کی ذمہ داری سونپی ہے، جو رات کے اوقات میں ان عمارات کی حفاظت کے ذمہ دار ہوں گے۔‘‘

طالبان نے کُل 750 اسکولوں کو تباہ کیا۔ ان میں سے 500 اسکول فاٹا کے تھے
طالبان نے کُل 750 اسکولوں کو تباہ کیا۔ ان میں سے 500 اسکول فاٹا کے تھےتصویر: dpa

فاٹا میں کُل 5572 تعلیمی ادارے ہیں، جن میں قریب پانچ لاکھ پچھتر ہزار طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ مومند ایجنسی کے ایک استاد سمیر احمد نے آئی پی ایس کو بتایا، ’’جب سے ہمارے اسکول کی تعمیر نو ہوئی ہے، اس میں طلبہ کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ دور دراز کے علاقوں سے بھی طالب علم یہاں داخلے کے لیے آ رہے ہیں۔‘‘

باجوڑ ایجنسی کے ایک مکینک عبدالوکیل کا کہنا ہے، ’’طالبان اسکولوں کا خاتمہ کر کے ہمارے بچوں کو پتھروں کے زمانے میں دھکیلنا چاہتے تھے مگر ہم ان کی سازشوں کو مسترد کرتے ہیں اور اپنی نسل کو بہتر سے بہتر تعلیم دینے کے لیے پر عزم ہیں۔‘‘ عبدالوکیل کے مطابق، ’’ہم تعلیم ہی کے ذریعے طالبان عسکریت پسندوں کو شکست دے سکتے ہیں۔‘‘