طالبان کی افغان جنگ کا ڈیجیٹل پہلو
11 مئی 2019افغان طالبان کے دو ترجمان ہیں۔ ان میں ایک ذبیح اللہ مجاہد اور دوسرے قاری یوسف احمدی۔ یہ دونوں افغانستان کے کسی خفیہ مقام پر مقیم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ دونوں قلمی نام رکھے ہوئے ہیں اور انہیں اجازت نہیں کہ وہ اپنی اصل شناخت کا اظہار کریں۔ ان دونوں کو صرف انہی ناموں کے استعمال کی اجازت ہے۔ وہ ان قلمی نام کے ذریعے صحافیوں سے رابطے رکھ سکتے ہیں۔
عصری تقاضوں کے مطابق طالبان کے دونوں ترجمان اپنے بیانات باقاعدگی سے جاری کرتے ہیں اور اس کے لیے وہ ٹوئٹر کا استعمال بھی کرتے ہیں۔ وہ عموما کابل میں مقیم نیوز ایجنسی روئٹرز کے نمائندے کو اپنا پیغام ٹیکسٹ کرتے ہیں یا آواز کی صورت میں روانہ کرتے ہیں۔
ان دونوں کی حتمی لوکیشن ممکن نہیں ہو سکی ہے۔ وہ اپنے بیانات کے لیے افغان ٹیلی فون نمبروں کا استعمال کرتے ہوئے واٹس ایپ تک رسائی بھی حاصل کر لیتے ہیں۔ قلمی ناموں کی تصدیق ذبیح اللہ مجاہد نے کی ہے۔ اُن کے ٹوئیٹ پر فالوورز کی تعداد بیالیس ہزار سے زائد ہے۔ مجاہد نے ہی طالبان کی ڈیجیٹل جنگ کی تفصیلات روئٹرز کو ٹیلی فون پر بیان کی ہیں۔
اس وقت طالبان پیغام رسانی کے جدید ذرائع استعمال کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ وہ واٹس ایپ کے علاوہ وائبر اور ٹیلی گرام کا بھی استعمال کرتے ہیں۔ یہ اپنے بیانات اور پیغامات انگلش، پشتو، دری، عربی اور اردو میں جاری کرتے ہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ افغان طالبان کی جانب سے سن 2011 میں پہلی مرتبہ ٹوئٹر پر پیغامات جاری کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا۔
ذبیح اللہ مجاہد کو افغان طالبان کا چیف ترجمان تصور کیا جاتا ہے۔ وہ طالبان کے روزانہ جاری ہونے والے بلیٹن کے چیف ایڈیٹر بھی ہیں۔ ان کی ذمہ داریوں میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ امریکی اور افغان افواج کی عسکری کارروائیوں کی تفصیلات پر مبنی رپورٹوں کو جمع کریں اور ان کی تفصیلات اپنے مرکزی قیادت کو فراہم کریں۔
طالبان کے مرکزی ترجمان کے مطابق اُن کے پاس مصنفین کی ایک ایسی ٹیم ہے، جو حقائق کی مختلف ذرائع سے پڑتال اور چھان بین کرتی ہے۔ اس ٹیم کے رابطے افغانستان کے چونتیس صوبوں میں استوار ہیں۔ مصنفین کی یہی ٹیم طالبان کی قیادت کے بیانات کو پانچ زبانوں میں مرتب کرتے ہیں۔ اسی ٹیم کی ذمہ داری ہے کہ وہ مختلف معاملات اور عسکری کارروائیوں کی فوٹیج حاصل کریں اور سمارٹ فونز سے تصاویر کا حصول ممکن بنائیں۔