طالبان کی شمالی افغانستان کی طرف پیش قدمی، حکومت پریشان
20 جنوری 2019طالبان عسکریت پسندوں نے سرپل پر قبضے کے لیے اپنی کارروائیاں تیز تر کر دی ہیں جبکہ وہ اس علاقے میں موجود تیل کے کنوؤں پر بھی قبضہ کر سکتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق طالبان اس طرح امریکی حکومت کے ساتھ مذاکرات میں اپنی پوزیشن مضبوط تر بنانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
سرپل کے گورنر کے ایک ترجمان ذبیح اللہ امینی کا نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’سرپل کی صورت حال ویسے ہی نازک ہے لیکن اب طالبان نے قریبی علاقوں پر بھی حملے شروع کر دیے ہیں۔‘‘
یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے، جب طالبان اور خصوصی امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد کے مابین ہونے والے امن مذاکرات جمود کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ طالبان عسکریت پسندوں نے افغانستان سے تمام امریکی فورسز کے نکل جانے کا مطالبہ کر رکھا ہے اور امریکی حکومت فی الحال اسے تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے۔
حالیہ کچھ عرصے میں طالبان کے اعتماد میں واضح اضافہ ہوا ہے اور شہروں کے مضافاتی دیہی علاقوں میں ان کا کنٹرول بڑھتا جا رہا ہے۔ دوسری جانب حکومتی فورسز کے حوصلے پست ہوتے جا رہے ہیں اور وہ شکستہ دلی کے ساتھ طالبان کو پیچھے دھکیلنے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
دریں اثناء طالبان عسکریت پسندوں کے حملوں کے باعث درجنوں خاندان بھی بے گھر ہو گئے ہیں۔ ایسے ہی تقریبا چالیس خاندان کوہستان سے سرپل پہنچے ہیں۔ یہ ضلع طالبان کے زیر قبضہ ہے اور بھاگ کر آنے والے یہ خاندان سخت سردی میں سرپل کی مساجد میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ سخت سردی کی وجہ سے داخلی سطح پر ہجرت کرنے والے ایسے مہاجرین کی زندگی مزید مشکلات شکار ہو رہی ہے اور حکومتی امداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ امینی کا مزید کہنا تھا، ’’یہ خاندان سرپل کے شہر کے مرکز میں موجود ہیں اور ان کی حالت بہت ہی خراب اور خستہ ہے کیوں کہ ان کے پاس زندہ رہنے کے لیے سامان نہ ہونے کے برابر ہے۔‘‘
ان بے گھر ہونے والے افراد کے مطابق طالبان ان خاندانوں کو علاقہ بدر کر رہے ہیں، جن کے بارے میں انہیں شک ہے کہ یہ حکومت کے لیے نرم جذبات رکھتے ہیں یا پھر جن کے خاندانوں کے مرد حکومتی فورسز کے لیے کام کرتے ہیں۔
ا ا / ع ح