’طالبان ہتھیار پھینک دیں اور القاعدہ سے الگ ہو جائیں‘
19 فروری 2012اس اعلیٰ عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر فرانسیسی خبر رساں ادارے کو بتایا کہ سعودی عرب نے ان مذاکرات کے لیے اپنی ثالثی کی پیشکش کو طالبان کے ہتھیار پھینکنے سے مشروط کیا ہے۔ ساتھ ہی طالبان کو باور کروایا گیا ہے کہ وہ القاعدہ سے اپنے رابطے ختم کریں،’’ہماری شرائط یہی ہیں اور یہ گزشتہ تین برسوں میں نہیں بدلیں‘‘۔
واضح رہے کہ سعودی عرب کی طرف سے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات میں ثالثی کی پیشکش قطر میں طالبان، امریکہ اور افغان حکومت کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے علاوہ ہے۔
اس سے قبل رواں برس جنوری کے اواخر میں افغان حکومت کے ایک ترجمان نے کہا تھا کہ افغان حکومت طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے سعودی عرب کو قطر پر فوقیت دیتی ہے۔
دوسری جانب افغان وزارت دفاع نے فوجیوں کو کہا ہے کہ وہ پاکستان میں موجود اپنے اہل خانہ کو افغانستان واپس بلانے کا سلسلہ شروع کر دیں۔ اس کارروائی کا مقصد افغان فوجیوں اور طالبان کے درمیان کسی ممکنہ رابطے کے امکانات کو ختم کرنا ہے۔ افغان حکومت کا خیال ہے کہ ایسے افغان فوجی جن کے اہل خانہ پاکستان میں ہیں، کسی نہ کسی طرح طالبان کے زیر اثر آ جاتے ہیں کیونکہ طالبان ان کے اہل خانہ کے ذریعے انہیں اپنے لیے کام کرنے پر یا تو مائل کر لیتے ہیں یا وہ کسی خوف سے ایسا کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور یہی فوجی افغانستان میں نیٹو فوجیوں کے خلاف کارروائیاں کرتے ہیں۔ افغان فوج کے کور کمانڈر قندھار عبد الحامد حامد نے تاہم یہ بھی کہا کہ یہ پالیسی ابھی حتمی نہیں ہے۔
عبدالحامد نے کہا، ’’بعض اوقات ایسے فوجیوں کے اہل خانہ کو مغوی بنا کر مختلف خفیہ ایجنسیاں فوجیوں پر دباؤ ڈالتی ہیں کہ فوجی وہ کریں جو وہ چاہتی ہیں۔‘‘
ادھر افغان صدر حامد کرزئی نے ہفتے کے روز افغان طالبان سے روابط کے حامل پاکستانی مذہبی رہنما مولانا سمیع الحق سے ملاقات کی۔ یہ ملاقات طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کے سلسلے میں عوامی سطح پر پہلا رابطہ قرار دیا جا رہی ہے۔
رپورٹ: عاطف توقیر
ادارت: عاطف بلوچ