طرابلس میں اجتماعی قبر دریافت
26 ستمبر 2011لیبیا کے سابق حکمران معمر قذافی کی اقتدار سے بے دخلی کا باعث بننے والے احتجاج کو دراصل ابو سلیم کے قتل عام سے متعلق ہی قرار دیا جاتا ہے۔ انسانی حقوق کے گروپوں کے اندازوں کے مطابق انیس سو چھیانوے میں ابو سلیم جیل میں تقریباﹰ دو ہزار افراد کو قتل کیا گیا تھا۔ عبوری حکومت کی جانب سے یہ دعویٰ ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب عبوری حکومت کی افواج نے قذافی کے آبائی شہر سرت پر مشرق کی جانب سے حملہ کیا ہے اور نیٹو نے شہر پر جنگی طیاروں کے ذریعے بمباری کی ہے۔
ابو سلیم جیل میں اجتماعی قبر کی دریافت کے بارے میں لیبیا کی عبوری حکومت کی فوجی کونسل کے ترجمان خال شریف کا کہنا ہے، ’’ہمیں وہ جگہ مل گئی ہے جہاں شہداء دفن ہیں۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ یہ قذافی کی ’مجرمانہ کارروائیوں‘ کا ثبوت ہیں۔
حکومت کی جانب سے ان لاشوں کی باقیات کی شناخت کے لیے ایک کمیٹی قائم کی گئی ہے۔ اس کمیٹی کے ایک رکن سلیم الفرجانی نے اس حوالے سے بین الاقوامی برادری سے مدد کی اپیل کی ہے۔ ’’ہم بین الاقوامی اداروں اور بین الاقوامی برادری سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ سترہ سو افراد کی باقیات کی شناخت میں ہماری مدد کریں۔‘‘
خیال رہے کہ امسال فروری کے مہینے میں معمر قذافی کے خلاف عوامی احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا تھا جسے قذافی حکومت نے سختی سے کچلنے کی کوشش کی تھی۔ بعد ازاں یہ احتجاج پر تشدد شکا اختیار کرتے ہوئے خانہ جنگی میں تبدیل ہو گیا۔ سینکڑوں افراد کی ہلاکت، کئی ماہ پر محیط نیٹو کی فضائی کارروائی اور باغیوں کی قذافی کے فورسز کے خلاف جنگ کے بعد بالآخر یہ بحران قذافی حکومت کے خاتمے پر منتج ہوا۔
رپورٹ: شامل شمس⁄ خبر رساں ادارے
ادارت: ندیم گِل