طرابلس میں، کم از کم پانچ دھماکے
23 جولائی 2011خبر رساں ادارے روئٹرز نے عینی شاہدین کے حوالے سے بتایا ہے کہ چار دھماکے اس ہوٹل کے قریب ہوئے، جہاں بین الاقوامی میڈیا کے نمائندے ٹھہرے ہوئے ہیں جبکہ ایک دھماکے کی صرف آواز سنی گئی۔ سرکاری طور ابھی تک ان دھماکوں کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کے بارے میں کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
دوسری جانب باغیوں نے طرابلس کے مشرق کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے قذافی کے حامی ایک اعلیٰ کمانڈر عبدالنبی زید کو گرفتار کر لیا ہے۔ لیبیا حکومت کے مطابق جنرل زید کو گزشتہ روز اس وقت گرفتار کیا گیا تھا، جب زخمی حالت میں انہیں مصراتہ کے ایک ہسپتال میں داخل کروایا گیا تھا۔
باغیوں کے کمانڈر نے کہا ہے کہ ان کے لیے یہ ایک اہم کامیابی ہے،’ کمانڈر سے پوچھ گچھ جاری ہے اور ہمیں ان سے اہم معلومات ملنے کی توقع ہے‘۔
باغی طرابلس کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے مصراتہ اور دارالحکومت کے درمیان واقع ایک قصبے زلیتین تک پہنچ چکے ہیں۔ باغیوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ دو روز میں ان کے 16 جنگجو ہلاک ہوئے ہیں۔ باغیوں کے ایک فیلڈ کمانڈر ایمن کا کہنا تھا،’ہم زلیتین کے قریب پہنچ چکے ہیں اور جلد ہی یہاں کے عوام کو ظالموں سے چھٹکارا دلائیں گے‘۔
لیبیا حکومت کا کہنا ہے کہ نیٹو فورسز کی طرف سے زلیتین میں عام شہریوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ غیر ملکی میڈیا کو اس شہر میں تباہ شدہ عمارتیں اور زخمی دکھائے گئے ہیں۔ دریں اثناء معمر قذافی نے کہا ہے کہ باغیوں کے ساتھ مذاکرات ناممکن ہیں جبکہ ان کے ایک ترجمان نے امریکہ کے ساتھ مذاکرات میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ جمعرات کو اپنے آبائی گاؤں میں ہزاروں کے مجمعے سے آڈیو خطاب میں معمر قذافی کا کہنا تھا،’میرے اور ان کے درمیان یوم حساب سے پہلے کوئی بات نہیں ہو گی۔ انہیں لیبیا کے عوام کے ساتھ مذاکرات کرنا ہوں گے اور وہ ہی ان کو جواب دیں گے‘۔ یہ بڑی ریلی قذافی کے حق میں نکالی گئی تھی۔
اطلاعات کے مطابق لیبیا کے وزیر خارجہ نے اپنے روسی ہم منصب سے ملاقات کی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اس میٹنگ میں قذافی کے ملک چھوڑنے پر بات کی گئی ہے۔ قذافی حکومت کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ مزید مذاکرات کے تیار ہیں۔
رپورٹ: امتیاز احمد
ادارت: عاطف بلوچ