1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طرابلس پر نیٹو کے فضائی حملے پھر سے شروع

15 جون 2011

نیٹو نے لیبیا کے دارالحکومت طرابلس پر تین دِن کے وقفے کے بعد فضائی حملے پھر شروع کر دیے ہیں۔ منگل کو رات گئے طرابلس میں دو طاقتور دھماکے ہوئے۔

https://p.dw.com/p/11aLj
تصویر: picture alliance/dpa

طرابلس میں دھماکے مقامی وقت کے مطابق شب ساڑھے گیارہ بجے کے قریب سنے گئے۔ عینی شاہدین کے مطابق شہر کے مرکزی علاقے کے قریب ایک مقام سے کالا دھواں اٹھتا دیکھا گیا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق لیبیا کے سرکاری خبررساں ادارے Jana کا کہنا ہے کہ نیٹو نے الفرجان ضلع میں شہری املاک کو نشانہ بنایا ہے۔

باغیوں نے قذافی نواز فورسز کے خلاف پیش رفت کرتے ہوئے دارالحکومت کے جنوب مغربی علاقے میں ایک گاؤں رائنیہ پر قبضہ کر لیا ہے۔

تاہم قذافی کی فورسز اس علاقے پر راکٹ حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اے ایف پی کے مطابق ان کارروائیوں کے نتیجے میں دو باغی ہلاک اور درجن کے قریب زخمی ہوئے ہیں۔

لیبیا کے باغیوں کو منگل کو ایک اہم سفارتی کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے۔ انہیں کینیڈا نے اس شمالی افریقی ریاست کے عوام کا قانونی نمائندہ تسلیم کر لیا ہے۔ کینیڈا کے ارکان پارلیمان نے تقریباﹰ متفقہ طور پر نیٹو کے تحت لیبیا کے لیے اپنے مشن کو ستمبر تک توسیع دے دی ہے۔

اُدھر امریکی ایوان نمائندگان کے ریپبلیکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے اسپیکر John Boehner نے صدر اوباما سے کہا ہے کہ جمعہ تک کانگریس سے عسکری کارروائی کی اجازت لیں یا پھر لیبیا مشن سے امریکی فوجی واپس بلاتے ہوئے اس کے لیے وسائل کی فراہمی بھی بند کر دیں۔

Republikaner USA Wahlkampf John Boehner Flash-Galerie
امریکی ایوان نمائندگان کے ریپبلیکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے اسپیکر جانتصویر: APImages

دوسری جانب نیٹو نے منگل کو ایک بیان میں کہا کہ لیبیا کا مشن جاری رکھنے کے لیے اسے کافی وسائل دستیاب ہیں۔ یہ بیان واشنگٹن انتظامیہ کی اس وارننگ کے بعد سامنے آیا، جس میں کہا گیا تھا کہ امریکی فوج پر انحصار سے مشن خطرے میں پڑ سکتا ہے۔

نیٹو کی ایک خاتون ترجمان Oana Lungescu کا کہنا ہے:’’یہ واضح ہے کہ معمر قذافی پر دباؤ برقرار رکھنے کے لیے نیٹو کے پاس وسائل ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ اس میں وقت لگتا ہے۔‘‘

تاہم ٹرانسفارمیشنز کے سپریم الائیڈ کمانڈر فرانسیسی جنرل Stephane Abrial نے خبردار کیا ہے کہ اس تنازعے نے طول پکڑا تو وسائل کا مسئلہ گمبھیر ہو جائے گا۔

رپورٹ: ندیم گِل/ خبر رساں ادارے

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں