’طلاق لو یا شوہر کی کثیرازدواجی زندگی برداشت کرو‘
10 فروری 2015مسلمان عُلماء اور قدامت پسند پاکستانی معاشرہ ایک عرصے سے چلے آ رہے اُن قوانین کے باوجود کثیرازدواجی روایات کی توثیق کرتا ہے، جن کے تحت اگر شوہر دوسری شادی کر لے تو بیوی اپنے شوہر کو طلاق دینے کا حق رکھتی ہے۔
جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے نے پاکستان سے اپنے ایک جائزے میں سدرہ جبین کی مثال دی ہے، جس کے شوہر نے دوسری شادی کر لی اور اُسے اس شادی کو زبردستی قبول کرنا پڑا کیونکہ وہ طلاق کی صورت میں غربت اور معاشرے میں کلنک کا ٹیکہ بن کر رہنے سے خوفزدہ تھی۔
28 سالہ سدرہ دو بچوں کی ماں ہے اور اپنی شادی کے تین سال بعد اُسے پتہ چلا تھا کہ اُس کے شوہر نے خفیہ طور پر ایک اور شادی کر رکھی ہے۔ وہ کہتی ہے، ’’طلاق لینے کے لیے اُس وقت تک بہت دیر ہو چُکی تھی۔ میرے پاس دو بچیاں تھیں، جن کا مستقبل میرے لیے اہم تھا۔ میں اس بات سے خوف زدہ تھی کہ باپ کے بغیر اُن کا مستقبل کیا ہو گا، میرے پاس رضا مندی اور مصالحت کے سوا کوئی دوسرا رستہ نہ تھا۔‘‘
طلاق دراصل ایک ذاتی فیصلہ ہوتا ہے تاہم پاکستان کے اسلامی معاشرے میں اس کے بہت سے مذہبی پہلو بھی ہیں۔ مسلم علماء کا ایک گروپ مسلم فیملی لاء میں تبدیلیوں کی سفارش کر رہا ہے جس کے تحت ایسی بیویوں کو طلاق لینے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے، جن کے شوہر اُن کی رضامندی کے بغیر دوسری شادی کر لیتے ہوں۔
اسلام آباد میں قائم اسلامی نظریاتی کونسل کے مطابق ’اسلام ایک مسلم مرد کو ایک وقت میں چار بیویاں تک رکھنے کی اجازت دیتا ہے اور عورتوں کو اسے برداشت اور تسلیم کرنا چاہیے‘۔
اس کونسل کو سرکاری طور پر آئین یہ اختیار دیتا ہے کہ یہ اسلامی روایات کی روشنی میں قانون سازی کا مشورہ دے۔ اس کونسل میں درجنوں مذہبی علماء شامل ہیں تاہم اسے اکثر و بیشتر انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم گروپوں کی طرف سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ خاص طور سے اس کونسل کی طرف سے بہت کم عمری میں یا بچپن میں لڑکی کی شادی کر دینے یا شوہروں کی طرف سے کثیرازدواجی روایت پر چلنے کی توثیق کی سخت تنقید کی جاتی ہے۔
کونسل آف اسلامک آئیڈیولوجی کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی کے بقول ’شوہر کی طرف سے ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کا عمل یہ جواز فراہم نہیں کرتا کہ بیوی طلاق لے لے۔
اُدھر اسلام آباد ہی کے ایک وکیل رضوان خان کہتے ہیں:’’پاکستان میں برطانوی عہد سے چلے آ رہے قانون کے تحت عورت کو یہ حق حاصل ہے کہ اگر اُس کا شوہر دوسری شادی کر لے تو وہ کورٹ کے ذریعے طلاق لے سکتی ہے۔ تاہم مردوں کی اجارہ داری والے قدامت پسند پاکستانی معاشرے میں ان قوانین کا ناجائز استعمال ہو رہا ہے اور بالآخر ان کا فائدہ مردوں ہی کو پہنچتا ہے۔‘‘
خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم ادارے’عورت فاؤنڈیشن‘ کا کہنا ہے کہ زیادہ تر کیسز میں ریاست مردوں کو ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت دیتی ہے۔ وکیل رضوان خان کہتے ہیں:’’اس مسئلے کی بدترین شکل دیہی برادریوں میں نظر آتی ہے، جہاں عورت کا اقتصادی اور سماجی اعتبار سے مکمل انحصار مرد پر ہوتا ہے۔‘‘
اسلامی نظریاتی کونسل نے مذہبی بنیادوں پر طلاق سے متعلق معاملات سے نمٹنے کے قوانین میں بھی تبدیلی کی سفارش کی ہے۔