عالمی اقتصادی بحالی، آئی ایم ایف ایشیا سے کیا چاہتا ہے؟
12 مارچ 2016نئی دہلی سے موصولہ نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی فرانس سے تعلق رکھنے والی خاتون سربراہ کرسٹین لاگارڈ کے مطابق عالمی معیشت کی نازک صورت حال اس وقت جن چیلنجوں کی وجہ بنی ہوئی ہے، ان کے مقابلے کے لیے ضروری ہے کہ ایشیائی ریاستیں اپنے ہاں ایسی مالیاتی پالیسیاں متعارف کرائیں، جو ان کی اقتصادی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی بجائے معاون ثابت ہو سکیں۔
بھارتی دارالحکومت میں آج ہفتہ بارہ مارچ کے روز ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے لاگارڈ نے کہا، ’’سوال یہ ہے کہ موجودہ حالات میں ایشیا کا ردعمل کیا ہونا چاہیے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ کلیدی اہمیت کے حامل فیصلے یہ ہونے چاہییں کہ اقتصادی ڈھانچے میں اصلاحات لاتے ہوئے ایسی مالیاتی پالیسیاں اپنائی جائیں، جو اقتصادی مقابلہ بازی کی اہلیت میں اضافے کا سبب بنیں اور ساتھ ہی شرح نمو کو تیز کرنے اور روزگار کے نئے مواقع کی وجہ بھی بنیں۔‘‘
نئی دہلی میں اس کانفرنس کے منتظمین میں آئی ایم ایف بھی شامل ہے۔ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کی مینیجنگ ڈائریکٹر نے ایشیائی ملکوں کو عالمی معیشت میں بہتری کے لیے ان کی ترجیحات کے حوالے سے جو مشورہ دیا، اس کا ایک پس منظر یہ بھی ہے کہ عالمی سطح پر پالیسی ساز ادارے اور حکومتیں اس وقت اپنے اپنے ملکوں کی معیشتوں میں بہتری کے لیے کوشاں ہیں، جس کی وجہ یہ ہے کہ پیداوار میں سست روسی اور بےتحاشا قرضوں نے ان معیشتوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
اس خراب عالمی اقتصادی صورت حال کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ یورپ اور جاپان میں مرکزی بینک صارفین کی طرف سے طلب میں اضافے اور افراط زر کی پریشان کن حد تک کم شرح سے نکلنے کے لیے منفی شرح سود تک کا اعلان کر چکے ہیں۔ لیکن اب تک یہ اقدامات مالیاتی منڈیوں میں بے یقینی کی وجہ بنے ہیں اور یوں مختلف ملکوں اور خطوں کی کرنسیوں کی قدر میں کمی کا خطرہ زیادہ ہو گیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ عالمی سطح پر رقوم مہیا کرنے والے بڑے بڑے اداروں نے اسی ہفتے خبردار کر دیا تھا کہ عالمی معیشت میں ترقی کی شرح اب تک کے اندازوں کے مقابلے میں اور بھی کم رہنے کا خدشہ ہے۔
نئی دہلی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کرسٹین لاگارڈ نے ایشیا کی سب سے بڑی اور دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت چین کے بارے میں کہا کہ بیجنگ کو قرضوں کے لیے مختص کردہ وسائل میں بہتری لانی چاہیے تاکہ وہ اپنی معیشت کو متوازن بنا سکے۔ چینی معیشت کی کارکردگی میں ابھی تک اس سرمایہ کاری کا عمل دخل بہت زیادہ ہے، جو بنیادی طور پر قرضے لے کر کی جا رہی ہے۔