عالمی اقتصادیات پر اوباما اور میرکل کے درمیان ٹیلی فونک بات چیت
28 اگست 2011جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور امریکی صدر باراک اوباما کے درمیان ہونے والی ٹیلی فونک بات چیت کے بارے میں امریکی صدر کی رہائش گاہ وائٹ ہاؤس سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق دونوں لیڈروں نے عالمی اقتصادیات کے علاوہ مشرق وسطیٰ میں دیرپا امن کے حوالے سے کوششوں پر بھی بات کی۔ یہ ٹیلی فونک بات چیت ہفتہ کے روز کی گئی تھی۔
ٹیلی فون پر بات چیت کے دوران دونوں لیڈروں نے کمزور عالمی اقتصادیات کے لیے مشترکہ کوششوں کو وقت کی ضرورت قرار دیا۔ دونوں نے گلوبل اکنامکس پر جو منفی بادل چھائے ہوئے ہیں اس کی مناسبت سے مجوزہ نکات کو بھی اپنی بات چیت کا حصہ بنایا۔ میرکل اور اوباما نے عالمی اقتصادیات کو درپیش چیلنجز کے ساتھ سست ہوتی معاشی ترقی کی رفتار اور شرح بے روزگاری پر بھی ایک دوسرے کو اپنے خیالات سے آگاہ کیا۔
دونوں لیڈر اس بات پر متفق تھے کہ عالمی اقتصادیات میں بہتری پیدا کرنے کے لیے مناسب اقدامات کے سلسلے میں اہم ترقی یافتہ اور ابھرتی اقتصادی قوتیں مل جل کر ایسے اقدامات تجویز کریں جن سے بروقت اور مثبت معاشی پیش رفت سے اقوام فائدہ حاصل کر سکیں۔ دونوں لیڈروں کی بات چیت کے حوالے سے وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں عالمی اقتصادیات میں تحریک پیدا کرنے کے حوالے سے اقدامات کی تفصیلات بیان نہیں کی گئی ہیں۔ میرکل اور اوباما نے عالمی اقتصادیات میں امید افزاء بہتری کے حوالے سے جی ٹوئنٹی کے فورم کو بھی اہم خیال کیا۔ ۔
اس بات چیت میں یورو زون ممالک میں پیدا شدہ قرضہ بحران کے منفی اثرات اور گھمبیر صورت حال بھی شامل تھی۔ یورو زون کے قرضہ بحران کے ساتھ یورو اور ڈالر کرنسی کی قدر میں مسلسل عدم استحکام پر بھی دونوں لیڈروں نے غور کیا۔ امریکہ کا خیال ہے کہ یورو زون ملکوں کا قرضہ بحران عالمی اقتصادیات پر انتہائی منفی اثرات کا حامل ہو سکتا ہے۔
وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ جرمن چانسلر اور امریکی صدر نے مشرق وسطیٰ کی تازہ صورت حال پر بھی خیالات کا تبادلہ کیا۔ دونوں لیڈر متفق ہیں کہ مشرق وسطیٰ کے لیے قائم چار فریقی گروپ امن مذاکرات کے لیے بہترین پلیٹ فارم ہے۔ اس گروپ میں امریکہ، روس، یورپی یونین اور اقوام متحدہ شامل ہیں۔ اسی گروپ کی کوششوں سے اسرائیل اور فلسطین میں براہ راست بات چیت کا موقع پیدا ہو سکتا ہے۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: ندیم گِل