عالمی ماحولیاتی کانفرنس سے متعلق جرمن صدر کے شکوک و شبہات
5 نومبر 2022جرمن صدر نے کہا ہے کہ اس وقت دنیا مختلف اور متعدد تنازعات کے دور سے گزر رہی ہے ایسے میں مصر کے پُر فضا سیاحتی مقام شرم الشیخ میں اتوار چھ نومبر سے شروع ہونے والی گلوبل کلائمٹ سمٹ COP27 کے خاطر خواہ نتائج اور پیش رفت کے بارے میں وہ شکوک و شبہات رکھتے ہیں۔ اشٹائن مائر نے یہ بیان آج ہفتہ پانچ نومبر کو جنوبی کوریا کے شہر پوسان میں دیا۔ اشٹائن مائیر کا کہنا تھا، ''یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ تنازعات کے وقت، یہاں تک کہ فوجی تصادم کے اس دور میں روس یا چین جیسی ریاستیں شرم الشیخ میں کانفرنس کے دوران یا اُس کے بعد بھی کوئی تعمیری کردار ادا کریں گی۔‘‘
جرمن صدر کے بقول، ''ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف پیشرفت ضروری ہے، چاہے اس کے لیے حالات بہت ساز گار یا حوصلہ افزا نہ بھی ہوں۔‘‘
ماحولیاتی جنگ میں پاکستان کہاں کھڑا ہے؟
جرمنی کی صورتحال
جنوبی کوریا کے دورے پر گئے ہوئے جرمن صدر نے موجودہ عالمی سیاسی صورتحال کے پس منظر میں جرمنی کو جن چیلنجز کا سامنا ہے ان کا خاص طور سے ذکر کیا۔ کلائمیٹ سمٹ کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے فرانک والٹر اشٹائن مائر نے اپنے ملک جرمنی کی صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے اس امر کی طرف نشاندہی کی کہ جرمنی کے لیے پوری معیشت کو پائیدار بنانا آسان نہیں ہے خاص طور سے ایک ایسے وقت میں جب یورپ کی سب سے بڑی معیشت )جرمنی( یورپ میں استحکام، یوکرین کو ہتھیاروں کی امداد اور دفاعی بجٹ میں اضافے جیسے اہم کاموں پر بہت زیادہ رقم خرچ کر رہا ہے۔ جرمن صدر کے بقول، ''یہی وہ رقم ہے جس کی ہمیں موسمیاتی تبدیلی سے لڑنے کے لیے ضرورت ہے۔‘‘ ماحولیاتی تبدیلیاں: 'ہم اپنی قبریں خود کھود رہے ہیں‘
'جرمنی کے موسمیاتی اہداف خطرے میں‘
جرمن صدر کے بیانات سے جو تاثر ملتا ہے، اسے جرمن ماہرین نے نہایت واضح الفاظ میں بیان کر دیا ہے۔ جرمنی 2030 ء تک اپنے موسمیاتی اہداف پورا کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوگا، اُس بارے میں برلن حکومت نے ماہرین کی ایک مطالعاتی کمیٹی قائم کی۔ اس کمیٹی نے اپنی رپورٹ جمعہ چار نومبر کو پیش کرتے ہوئے خبردار کیا کہ جرمنی کے 2030 ء تک کے لیے طے شدہ موسمیاتی اہداف خطرے میں ہیں۔ ایک سرکاری تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جرمنی میں ضرر رساں گیسوں کے اخراج میں کمی کے عمل میں سست روی کی ذمہ دار دو اہم شعبے ہیں۔ صنعت اور ٹرانسپورٹ۔ مزید یہ کہ برلن کے قابل تجدید توانائی کے اہداف کو پورا کرنے کا بھی امکان نہیں پایا جاتا۔ موسمیاتی اہداف کی تحقیق کے لیے قائم کی گئی ماہرین کی اس کمیٹی کی نائب چیئرمین بریگیٹے کنُوپف نے اس بارے میں کہا، ''اس وقت ایسا نہیں لگتا کہ کہ ہم اہداف تک پہنچ سکیں گے۔‘‘ ماہرین کی رپورٹ پر روشنی ڈالتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا، ''ہم یقینی طور پر 2030ء تک کلائمیٹ سے متعلق اہداف تک نہیں پہنچ پائیں گے۔‘‘
برلن کے وعدے
جرمن رفاقی حکومت نے سال 2030ء تک گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو 1990ء کی سطح سے 65 فیصد کم تک لانے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔ جرمنی کے ریاستی ایکٹ برائے موسمیاتی تحفظ میں دراصل اہم اصلاحات کی گئیں تھیں جس کے بعد جرمنی کی اعلیٰ عدالت نے کہا تھا کہ یہ قوانین بہت 'مبہم‘ ہیں۔
جرمنی نے 2030 ء تک کوئلے کے استعمال کو بھی مکمل طور پر ختم کرنے کے عزم رکھتا تھا لیکن اس یورپی ملک نے حال ہی میں روس سے قدرتی گیس کی سپلائی میں کمی کی وجہ سے کوئلے سے توانائی کی پیداوار میں اضافہ کر دیا۔
رپورٹ کے مطابق ضرر رساں گیسوں کے اخراج میں کمی کے عمل میں سست روی کے سب سے زیادہ ذمہ دار صنعتی شعبے اور ٹرانسپورٹ کے شعبے رہے ہیں۔
ک م/ا ب ا(ڈی پی اے، روئٹرز)