عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کا کردار
2 اگست 2011پاکستان اور امریکہ کے مابین تعلقات میں تبدیلی رونما ہوتی رہتی ہے۔ 80 کے عشرے میں اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان قریبی روابط پائے جاتے تھے۔ کم از کم 1988ء اور 1989ء میں افغانستان سے ریڈ آرمی کے انخلاء تک۔ اُس کے بعد پاکستان میں امریکہ کی دلچسپی ختم ہو گئی۔ پھر گیارہ ستمبر دو ہزار ایک کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد پاکستان ایک دم پھر سے امریکہ کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ خاص طور سے طالبان اور القاعدہ کے خلاف جنگ میں متبادل راستے کے طور پر۔ اس نئے اسٹریٹیجک تعاون میں اسلام آباد نے گرچہ امریکہ کا بھرپور ساتھ دینے پر رضا مندی ظاہر کی تاہم آدھے دل سے، کیونکہ پاکستان نے طالبان حکومت کے ساتھ تعلقات استوار رکھے اور اب تک پڑوسی ملک افغانستان میں اپنے اقتصادی مفاد پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ افغانستان میں پاکستان کا ایک اور اہم مقصد، اسٹریٹیجک گہرائی ہے۔ جنوبی ایشیائی امور کے ایک جرمن ماہر کونراڈ شیٹر کا کہنا ہے کہ ’پاکستان کابل میں ایک ایسی حکومت کو برسر اقتدار دیکھنا چاہتا ہے جو اُس کے مفاد میں ہو‘۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان طالبان کے خلاف جنگ میں کسی خاص سختی سے کام نہیں لینا چاہتا۔ بھارت کے ساتھ ممکنہ جنگ کی صورت میں افغانستان پاکستان کے لیے پیچھے ہٹنے کا ایک راستہ ہے۔ جنوبی ایشیا کی دونوں ایٹمی قوتیں تین جنگیں لڑ چکی ہیں۔ سرحدی تنازعات ہنوز باقی ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان دشمنی عشروں پر محیط ہے۔
بھارت کے خلاف اتحاد
پاکستان کی موجودہ حکمت عملی یہ ہے کہ انتہا پسندوں کے ساتھ ایک خاص زاویے سے عملی تعاون کیا جائے۔ یہ کہنا ہے دہشت گردی سے متعلقہ امور پر گہری نظر رکھنے والے ایک پاکستانی ماہر رحیم اللہ یوسف زئی کا۔ پاکستان کا خیال ہے کہ انتہا پسند سراسر بھارت کے خلاف ہیں کیونکہ بھارت مسلمانوں کی اکثریت والا ملک نہیں ہے۔ بھارت کے ساتھ کسی نئی جنگ کی صورت میں پاکستان افغانستان میں اپنا ایک ساتھی چاہتا ہے۔ طالبان کے افغانستان میں ایک خدائی ریاست کے قیام کے مقاصد پاکستان کی جنوبی ایشیائی خطے کے لیے منصوبہ بندی کے عین مطابق ہیں۔
یوسف زئی کے مطابق، ’’مغرب اور امریکہ ایک پالیسی کو یا تو سمجھ نہیں پا رہے یا سمجھنا نہیں چاہتے، وہ یہ کہ پاکستان کی طالبان سے متعلق پالیسی امریکہ اور مغرب سے کہیں مختلف ہے۔ پاکستان ایک سیاسی حل پر زور دیتے ہوئے طالبان کے ساتھ مذاکرات چاہتا ہے جبکہ امریکہ طالبان کو شکست دینے کا خواہشمند ہے۔‘‘
امریکہ کے واضح مطالبات
امریکی حکومت اب مذاکرات چاہتی ہے۔ تاہم اس سے قبل طالبان کو دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ سے مکمل علیحدگی اختیار کرنا ہو گی۔ افغانستان متعینہ تقریباً ایک لاکھ کی نفری والی امریکی فوج طالبان پر ان مذاکرات کے لیے دباؤ ڈال رہی ہے۔ پاکستان کی سر زمین پر قائم انتہا پسندوں کے محفوظ ٹھکانوں پر اندھا دھند ڈرون حملے امریکی حکمت عملی کا حصہ ہیں۔ امریکہ کا پیغام واضح ہے: طالبان کے ساتھ پاکستان کے تعاون کی اجازت ہرگز نہیں دی جائے گی۔ جرمن ماہر سیاسیات یوخن ہپلر کہتے ہیں، ’اسلام آباد تک یہ امریکی پیغام پہنچ چکا ہے‘۔
ایک مشکل پارٹنر شپ
پاکستان کو اپنی پالیسی کے بارے میں نظر ثانی کرنے پر مجبور کرنے کے لیے امریکہ کو صبر و تحمل سے کام لینا ہوگا۔ یہ ماننا ہے ایک جرمن تھنک ٹینک DGAP سے منسلک ماہر Henning Riecke کا۔ اس ضمن میں امریکی حکومت پاکستان کو کوئی متبادل نہیں دے رہی بلکہ اسلام آباد کو زیر دباؤ لا رہی ہے۔ ساتھ ہی واشنگٹن کو اس امر کا ادراک بھی ہے کہ اگر یہ دباؤ حد سے بڑھ گیا تو اسلام آباد کی کمزور حکومت کا شیرازہ بکھر جائے گا اور اُس کے بعد کی صورتحال نہایت سنگین اور نقصان دہ ہوگی۔ ایسی صورت میں مذہبی قوتوں کے لیے ان کے اپنے مقاصد کے حصول میں آسانی پیدا ہو جائے گی، اور ہَینِنگ رِیکے کے مطابق امریکہ یہ نہیں چاہتا۔
رپورٹ: رتبیل شامل / کشور مصطفیٰ
ادارت: مقبول ملک