عالمی کرکٹ کپ 2019 : ’پاکستان ویسٹ انڈیز کی کمزوری جانتا ہے‘
30 مئی 2019پاکستان جمعہ 31 مئی کو اپنی عالمی کپ مہم وسطی برطانیہ کے شہرناٹنگھم میں شروع کرنے والا ہے۔ رابن ہُڈ کی سر زمین پر پاکستان کا پہلا پالا ہی ایک ایسی ٹیم (ویسٹ انڈیز) سے پڑ رہا ہے جو اپنے دور رفتہ کی بحالی کے لیے پر تول رہی ہے۔ گزشتہ صدی کے آخری عشروں میں باؤلنگ کے بل پر ہی ویسٹ انڈینز کی طرح پاکستانیوں نے بھی کرکٹ کی دنیا پرحکمرانی کی لیکن ماضی کی وہی طاقت آج پاکستانی کمزوری بن چکی ہے۔ اسکی سنگینی کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے گزشتہ 18 یک روزہ بین الاقوامی مقابلوں میں پاکستانی باؤلرز صرف ایک بار ہی مخالف ٹیم کو آل آؤٹ کرپائے ہیں۔
باؤلنگ کے بحران نے ہی سلیکٹرز کو بھولے بسرے وہاب ریاض کی یاد دلائی جن کی ہیڈ کوچ مکی آرتھر چھ ہفتے پہلے تک شکل دیکھنے کے بھی روادار نہ تھے۔ حالیہ پی ایس ایل اور پاکستان کپ میں مسلسل تیز باؤلنگ کر کے 33 سالہ وہاب اپنی ڈومیسٹک ٹیموں کو فائنل تک لے گئے تھے لیکن وہ عالمی کپ کے ممکنہ 23 کھلاڑیوں اور لاہور فٹنس کیمپ میں شمولیت کے قابل نہ ٹھہرائے گئے۔ وہاب کی دو سال بعد قومی ٹیم میں واپسی کے بعد پاکستان کی ڈیتھ باؤلنگ تومضبوط ہوئی ہے لیکن نئی گیند کس سے کرائی جائے؟ یہ سوال کپتان سرفراز احمد کے لیے اور زیادہ ٹیڑھا ہوگیا ہے۔ محمد عامر کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ وہ ویسٹ انڈیز کے خلاف پہلے میچ میں دستیاب نہیں ہوں گے۔ چیچک کا شکار ہونے کے بعد عامر نے افغانستان کے خلاف چھ اوورز کا بے وکٹ اسپیل کیا تھا۔
ویسٹ انڈیزکی بیٹنگ بٹالین میں صرف شاہی ہوپ ہی دائیں ہاتھ سے کھیلتے ہیں اور بائیں بازو والوں کے خلاف وہاب ریاض کی طرح محمد عامر زیادہ فعال ثابت ہوتے۔ حیران کن طور پر پاکستانی ٹیم کے سب سے کم عمر رکن شاہین آفریدی بری طرح تھکے تھکے لگ رہے ہیں۔ کچھ یہی حال حسن علی کے علاوہ بے دخل فہیم اشرف اور لب سی لینے والے جنید خان کا بھی تھا۔ انگلینڈ کے خلاف رواں ماہ سبکی پر ختم ہونے والی سیریز میں فاسٹ باؤلرز نے ہی سب سے خراب فیلڈنگ کی جو ان کی تھکاوٹ کی ہی دلیل ہے۔
’ناخن اتارنے کی کوشش میں انگلیاں نہیں کٹوایا کرتے‘
باؤلنگ کوچ اظہر محمود سے زیادہ اس بات سے کون واقف ہوگا کہ وسیم اکرم اور وقاریونس سمیت ماضی کے فتح گرپاکستانی فاسٹ باؤلرز ہمیشہ گراؤنڈ رننگ، نیٹ اور ڈومیسٹک میچوں میں لمبے اسپیل کر کے ہی بڑے مقابلوں کے لیے خود کو تیار کرتے تھے مگر حیران کن طور پر اس عالمی کپ کی تیاری کے لیے پیسرز کو کئی روز تک قذافی اسٹڈیم کی سیڑھیاں چڑھنے اترنے کی فوجی مشقیں کرائی گئیں۔ لگتا ہے ٹریننگ کی اسی زیادتی نے سیمرز کے جسم کی چستی اور ٹانگوں کی پھرتی کو متاثر کیا ہے۔ دانا درست ہی کہ گئے تھے کہ ناخن اتارنے کی کوشش میں اپنی انگلیاں نہیں کٹوایا کرتے۔
’سہمے سہمے چراغ جلتے ہیں‘
ورلڈ کپ سے سوا ماہ قبل انگلینڈ پہنچنے کا پاکستانی بیٹنگ کو ضرور فائدہ ہوا ہے۔ بابر اعظم جنہوں نے اس سے قبل انگلینڈ کے دو ون ڈے دوروں میں نصف سینچری بھی نہ بنا پائے تھے، اس بار ناٹنگھم پر ہی سینچری بھی بنا چکے ہیں۔ امام الحق اور فخر زمان کی سینچریاں بھی اچھا شگون ہیں لیکن بیٹنگ آرڈر اور ٹیم کمبنیشن کپتان اور کوچ کے لیے ایک اور درد سر ہے۔ سرفرازاحمد اسپن کھیلنے والے ٹیم کے سب سے اچھے بیٹسمین ہیں لیکن محمد حفیظ اور شعیب ملک کو مڈل آڑدر میں ’اکاموڈیٹ‘ کرنے کی خاطر وہ خود ٹیل کا حصہ بن جاتے ہیں۔ یوں آخری دس اوورز میں جا کر ماردھاڑ کرنا ان کے بس کی بات نہیں رہتی۔ ایسے حالات میں چیف سلیکٹر انضمام الحق کا ٹورسلیکشن کمیٹی کا حصہ بننا بری بات نہیں۔ انضمام کو اگر میچوں کی منصوبہ بندی میں بھی شرکت کا اختیار مل جاتا توکوئی مضائقہ نہ تھا لیکن ورلڈ کپ میں پاکستان صرف ان دو ٹیموں میں شامل ہے جنکے ہیڈ کوچ نان ٹیسٹ کرکٹر ہیں۔ اس لیے مکی کیسے چاہیں گے کہ اونٹ پورا ہی خیمے میں داخل ہوجائے؟
'رابن ہوڈ کے شہر میں ایک ہفتہ‘
پاکستانی ٹیم منگل 28 مئی کو ہی کارڈف سے ناٹنگھم پہنچ گئی تھی جہاں اسے ویک اینڈ کے دونوں طرف ویسٹ انڈیز اور انگلینڈ سے نبرد آزما ہونا ہے۔ ناٹنگھم ایک لازوال باغی بہادر اور تیرانداز رابن ہُڈ کی سر زمین ہے۔ ان دنوں اس شہر کی آغوش میں واقع ٹرینٹ برج کی پچ دیکھتے ہی باؤلرز کے سینے میں بھی ایک تیر سا لگتا ہے۔ یہ انگلینڈ کا سب سے ہائی اسکورنگ میدان ہے جہاں گزشتہ برس 481 رنز کا عالمی ریکارڈ بھی قائم ہوچکا ہے۔ ویسٹ انڈیز کے برسٹل وارم اپ میچ میں نیوزی لینڈ کے خلاف 421 رنز بنانے پرسب ٹیموں کے کان کھڑے ہوئے ہیں۔ یہ سال ویسے بھی ویسٹ انڈین کرکٹ میں تبدیلی اور امید کا پیغام لے کر آیا ہے۔ ویسٹ انڈیز کے کرکٹ بورڈ سے ڈیوڈ کیمرون جیسے ڈکٹیٹرکا دور ختم ہونے پر پرانے کھلاڑیوں اور انتظامیہ کے مراسم بحال ہوئے ہیں۔ انگلینڈ کے خلاف فروری میں ٹیسٹ سیریز جتوانے کے بعد کپتان جیسن ہولڈر کو اب دنیا بھر میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا ہے وہ عالمی نمبر ایک آل راؤنڈر ہیں۔ لیکن ہولڈرکی کپتانی میں ویسٹ انڈیز نے گزشتہ پانچ برس میں ایک بھی ون ڈے سیریز نہیں جیتی۔ ویسٹ انڈین کھلاڑی زیادہ ترٹی ٹونٹی کے دلدادہ ہیں اور پریکٹس کی کمی کے باعث اکثر پچاس اوورز کی کرکٹ میں اس ٹیم کو قلابازیاں لیتے دیرنہی لگتی۔ پاکستان کوان کی اسی کمزروی کا فائدہ اٹھانا ہے۔ نئی پاکستانی امیدیں اب اسپنرز سے وابستہ ہیں۔ آف اسپنر محمد حفیظ کو کرس گیل اور ایون لوئس کے سامنے جلدی لانا ضروری ہوگا۔ شاداب خان کو خاص طور پرجارحانہ انداز میں استعمال کرنا ہوگا۔ کپتان سرفرازاحمد کویاد ہی ہوگا کہ شاداب کی گُگلی پراکثر خالی سلپ سے لیفٹ ہینڈرز کے کیچ نکل جایا کرتے ہیں۔ اگر ناٹنگھم میں بھی ایسا ہوا تو پھر ویسٹ انڈیز کے دیو ہیکل بیٹسمینوں کو بربادی برپا کرنے سے روکنے والا کوئی نہ ہوگا۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔