عالمی یوم آبادی اور پاکستان
11 جولائی 2013اس سال اس دن کا موضوع کم عمری میں حمل کے باعث پیدا ہونے والے مسائل کے حوالے سے آگاہی ہے۔ عالمی آبادی نے آج سے 26 برس قبل جب پانچ ارب کا ہندسہ عبور کیا تو عالمی سطح پر آبادی میں اضافے اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے کی ضرورت شدت سے محسوس کی جانے لگی۔ اس سے دو برس بعد یعنی 1989ء میں اقوام متحدہ کی طرف سے اسی دن عالمی یوم آبادی منانے کا فیصلہ کیا گیا۔
سن 1950ء میں محض ڈھائی ارب آبادی رکھنے والی ہماری یہ دنیا اس وقت سات ارب سے زائد انسانوں کا گھر ہے۔ یاد رہے کہ سات بلین کا یہ ہندسہ بھی سن 2011 میں عبور ہوا تھا۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی غذائی ضروریات پوری کرنا، ان کی صحت اور روزگار کی سہولتیں فراہم کرنا دن بدن دنیا کے لیے ایک گھمبیر مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔
پاکستانی محکمہ مردم شماری کے مطابق اس وقت ملک کی آبادی اندازً 18 کروڑ چالیس لاکھ کے قریب ہے اور اس وقت یہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے۔ آبادی کا یہ جن پاکستان میں موجود وسائل کو ہڑپ کر رہا ہے۔ اس بارے میں حکومت پاکستان کے سابق چیف اکانومسٹ پرویز طاہر کہتے ہیں کہ اس وقت ملک کی معیشت خاصی مشکلات میں گھری ہوئی ہے، ’’کیونکہ ترقی کی رفتار بہت کم ہو چکی ہے اور آبادی میں اضافے کی رفتار زیادہ ہے۔ ترقی کی رفتار اتنی زیادہ کم ہے کہ وہ لوگ، جو مارکیٹ میں آرہے ہیں، ان کے لئے نوکریاں پیدا نہیں ہو رہیں، مواقع پیدا نہیں ہو رہے۔اس کے علاوہ پاکستان اس وقت بہت سی مائیکرو مشکلات میں بھی گھرا ہوا ہے اور اسے نو فیصد کے بہت بڑے خسارے کا بھی سامنا ہے۔‘‘
حکومتی اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں آبادی میں اضافے کی شرح دو فیصد سے زائد ہے اور یہ بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا اور ملائیشیا سے بھی زیادہ ہے۔ بھارت میں آبادی میں اضافے کی شرح ایک اعشاریہ تین فیصد اور بنگلہ دیش میں ایک اعشاریہ پانچ فیصد ہے۔ ناکافی وسائل اور بڑھتی آبادی کے مسائل کے باعث ملک کی معیشت پر بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے بیکن ہاؤس نیشنل یونیورسٹی لاہورمیں اسکول آف لبرل آرٹس اینڈ سوشل سائنس کے ڈین اور معروف اکانومسٹ ڈاکٹر حفیط پاشا کہتے ہیں،’’آبادی میں اضافے کی شرح ڈھائی فیصد ہے اور معیشت میں اضافے کی شرح گزشتہ پانچ سال سے تین فیصد ہے۔ فی کس آمدنی ہے وہ مشکل سے آدھا فیصد سالانہ بڑھ رہی ہے اور ساتھ ساتھ جو ہمارے یہاں مسئلہ ہے کہ آمدنی میں اضافہ عام طور پر امیر طبقے کو فائدہ دے رہا ہے، تو اس کے باعث غربت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور ایک اندازے کے مطابق ملک میں سات کروڑ افراد غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر حفیظ پاشا نے اس جانب بھی اشارہ کیا کہ آبادی میں جس طرح سے اضافہ ہوا ہے اس کے باعث ملک میں نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہو گئی ہے، ’یعنی اس وقت ہمارے یہاں ایک بہت بڑا یوتھ بلج ہے، جو عام طور پر اچھا سمجھا جاتا ہے کیونکہ جب کسی ملک کی آبادی میں نوجوانوں کی اوسط بڑھتی ہے تو اس ملک میں انحصار کی شرح کم ہو جاتی ہے۔ مگر ہمارے ملک میں مسئلہ یہ ہے کہ جس تیزی سے آبادی بڑھ رہی ہے، نوجوانوں کو روزگار کے مواقع کم مل رہے ہیں اور اندازہ یہ ہے کہ اگر ملک میں بے روزگاری کی شرح سات فیصد ہے تو نوجوانوں میں یہ شرح اس سے دوگنی ہے۔ ‘‘
اقوام متحدہ کے اعداد وشمار کے مطابق سن 1950ء میں پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا میں 13ویں نمبر پر تھا جبکہ آج اس کا نمبر اس فہرست میں چھٹا ہے۔ عالمی اندازوں کے مطابق اگر آبادی میں اضافے کی یہ شرح برقرار رہی تو سن 2050ء میں پاکستان کی آبادی 35 کروڑ تک پہنچ جائے گی اور یہ دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ آبادی رکھنے والا ملک بن جائے گا۔