عام شہریوں کے خلاف مقدمات فوجی قوانین کے تحت؟
16 مئی 2023پاکستان کے قانونی اور دیگر حلقوں میں اس بات پر بحث ہورہی ہے کہ عام شہری پر آرمی ایکٹ یا آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایا جا سکتا ہے یا نہیں اور یہ کہ اگر ایسا کوئی مقدمہ چلایا جاتا ہے تو کیا یہ انصاف کے بین الاقوامی تقاضوں پر پورا اترتا ہے۔
واضح رہے کہ کور کمانڈر کی اسپیشل کانفرنس کے بعد پیر کو جاری ہونے والے ایک اعلامیہ میں کہا گیا تھا کہ 9 مئی کے احتجاجمیں جن بلوائیوں نے عسکری تنصیبات پر پر حملے کیے تھے اور ان کو نقصان پہنچایا ان پر آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمات چلائے جائیں گے۔ اس طرح کے مقدمات کی منظوری پنجاب حکومت نے بھی دی ہے۔
واضح رہے کہ روزنامہ جنگ نے بھی آج اپنی ایک رپورٹ میں اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ جن عناصر نے جناح ہاؤس لاہور، جی ایچ کیو راولپنڈی اور دوسری حساس سرکاری فوجی املاک کو جزوی یا کلی طور پر تباہ کیا ہے ہے ان کے خلاف فوری سماعت کی فوجی عدالتیں تشکیل دی جائیں گی۔ ان ملٹری کورٹس کا سربراہ کم سے کم کرنل ، بریگیڈئیر یا زیادہ سے زیادہ میجر جنرل کے عہدے کا فوجی افسر ہوگا۔
روزنامہ جنگ کی اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ حالیہ احتجاج کے دوران ریٹائرڈ فوجی افسر اور اہلکار بھی گرفتار ہونے والوں میں شامل ہیں۔
مقدمات آئینی ہیں
قانونی ماہرین کی اس حوالے سے آراء مختلف ہیں۔ کچھ قانونی ماہرین اسے آئینی قرار دیتے ہیں جبکہ کچھ کے خیال میں فوجی عدالتیں اور فوجی قوانین کے تحت بین الاقوامی انصاف کے اصولوں کے منافی ہے اور انسانی حقوق کے عالمی چارٹر کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے۔
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے معروف قانون دان شاہ خاور کا کہنا ہے کہ پاکستان کا آئین اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ سویلین پر فوجی قوانین کے تحت مقدمہ چلایا جائے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' آرمی ایکٹ 1952 ء کے تحت فوجی افسران کو فوجی عدالتیں ٹرائل کر سکتی ہیں۔ تاہم اس میں سویلین کا بھی ٹرائل کیا جا سکتا ہے، جو کسی فوجی افسر کو بغاوت پر اکسائیں یا سرکاری رازوں کی خلاف ورزی کریں۔‘‘
شاہ خاور کے آرمی ایکٹ میں ترمیم کرنے کے بعد اس میں یہ شق بھی شامل کر لی گئی ہے کہ اگر کوئی شخص سرکاری عمارتوں یا ملٹری تنصیبات کو نقصان پہنچائے، تو اس پر بھی فوجی قوانین کے تحت مقدمہ دائر کیا جاسکتا ہے اور اس کو بھی سزا دی جاسکتی ہے۔‘‘
طریقہ کار کیا ہوگا؟
اگر سویلین کو مقدمات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو پھر طریقہ کار کیا ہوگا۔ اس حوالے سے شاہ خاور کہتے ہیں۔ ''فیلڈ کورٹ مارشل ایسی عدالتوں کی صدارت کرے گا اور اس کے فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل نہیں کی جاسکے گی بلکہ اگر کسی سویلین کو ان مقدمات میں سزا ہوتی ہے تو وہ اپیل بھی آرمی چیف سے کرے گا، ان مقدمات میں ملوث سویلین کو کوارٹرز گاررڈ کی حراست میں رکھا جائے گا اور وہیں اس سے تفتیش کی جائے گی۔ اس کے بعد ایک سمری آف شواہد جمع کی جائے گی اور اقبالی بیان کو بھی ثبوت کے طور پر لیا جا سکتا ہے۔ ایسے سویلین کو وکیل صفائی بھی آرمی کی ہی طرف سے دیا جائے گا گو کہ وہ کسی پرائیویٹ وکیل کو بھی کر سکتا ہے۔‘‘
شاہ خاور کا کہنا ہے کہ سزائے موت کی صورت میں مجرم صدرپاکستان سے رحم کی اپیل کر سکتا ہے۔
ہائی کورٹ کا اختیار
شاہ خاور کہتے ہیں کہ ہائی کورٹ تین معاملات میں ممکنہ طور پر مداخلت کر سکتی ہے۔ '' جس میں ایک یہ ہے کہ متعلقہ شخص کو عدالت نے اگر سزا دی ہے اور وہ معاملہ اس عدالت کے دائرہ اختیار میں ہی نہیں آتا تو پھر ہائی کورٹ مداخلت کر سکتی ہے اور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی جاسکتی ہے۔ دوسرا یہ کہ جرم سرزد ہی نہ ہوا ہو اور تیسرا کہ مقدمہ بدنیتی پر مبنی ہو۔‘‘
پاکستانی فوج میں کرپشن کے الزامات کی حقیقت کیا؟
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ماہر قانون نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' ہمارے ہاں 1973 ء کے آئین سے لوگوں کو ایک رومانوی انسیت ہے لیکن درحقیقت 1973 ء کے قوانین میں بہت ساری متضاد چیزیں ہیں۔
مثال کے طور پر آرٹیکل 19 آپ کو اظہار رائے اور احتجاج وغیرہ کی اجازت دیتا ہے لیکن یہ احتجاج قانون کی حدود میں ہوتا ہے اور جب آپ ان حدود کو پڑھیں گے تو وہ حدود بین الاقوامی انصاف کے تقاضوں کے منافی ہیں۔ تو اگر آپ یہ پوچھتے ہیں کہ کیا فوجی قوانین کے تحت سویلین کے اوپر مقدمات چلائے جا سکتے ہیں، تو پاکستان کے آئین اور قانون کے تحت اس کا جواب ہاں میں ہے لیکن اگر آپ یہ پوچھتے ہیں کیا ایسا ہونا چاہیے تو اس کا جواب نفی میں ہے کیونکہ یہ انسانی حقوق کے عالمی منشور کے خلاف ہے۔‘‘
پچیس سویلینز کا ٹرائل
راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے معروف وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کا کہنا ہے کہ عمران خان کے دور حکومت میں پچیس سویلینز کا فوجی قوانین کے تحت ٹرائل ہوا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''آئین میں آرٹیکل ٹو ڈی موجود ہے، جس کے تحت پہلے صرف سویلین عدالتیں اس طرح کے معاملات کو دیکھتی تھیں لیکن ایوب خان نے انیس سو چھیاسٹھ میں فوجیوں کو بھی یہ اختیار دے دیا کہ اگر کوئی سویلین فوجی کو بغاوت پر اکسائے تو اس کے خلاف فوجی قوانین کے تحت مقدمات چلائے جا سکتے ہیں۔‘‘
انعام الرحیم کے مطابق تاہم اس طرح کے مقدمات کا اختیار سویلین عدالتوں کو بھی ہے۔ ''ایوب خان کے دور سے لے کر اب تک کتنی ہی حکومتیں آئیں لیکن سیاست دانوں نے اس قانون کو ختم نہیں کیا۔ اب مقدمات اگر چلتے ہیں تو یہ سیاست دانوں کی اپنی غلطی بھی ہے۔‘‘