عبدالستار ایدھی کا انتقال: انعامات و اعزازات سے بالاتر زندگی
8 جولائی 2016ایک ایسا ملک جس کی بین الاقوامی سطح پر شناخت کی وجہ عدم رواداری اور انتہا پسندی بن گئی ہے، وہاں عبدالستار ایدھی انسانیت اور سکیولر اقدار کا ایک مجسم پیکر تھے۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی کسی بھی لسانی اور مذہبی تفریق سے بالاتر ہو کر اپنے ہم وطنوں کی بے لوث خدمت کے لیے وقف کی۔
در حقیقت ایدھی مدر ٹیریسا کی طرح ایک بے مثال سماجی کارکن تو تھے ہی، جو بات انہیں مدر ٹیریسا سے ممتاز کرتی تھی وہ ان کا مذہب کی قید سے بلند ہو کر انسانیت کی خدمت کرنا تھی۔ ایدھی خود کو ایک سکیولر انسان قرار دیتے تھے اور انسانیت اور صرف انسانیت ہی ان کے لیے اہم ترین تھی۔ اسی لیے انہوں نے تمام مسالک اور مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے دن رات کام کیا۔ اس میں وہ افراد بھی شامل تھے جن کا تعلق اقلیتی گروپوں سے تھا۔
یہی وجہ ہے کہ ان کے انتقال کی خبر نے پاکستان کے ہر شخص کو متاثر کیا ہے۔ پاکستان کا سب سے زیادہ چاہے اور سراہے جانے والا شخص اب ہم میں نہیں رہا۔
اس عظیم فلاحی کارکن نے ایدھی فاؤنڈیشن نامی تنظیم چھ دہائیوں تک کچھ ایسے چلائی کہ حکومت بھی وہ کام نہ کر سکی جو اس تنظیم نے کیا۔ بلا شبہ ایدھی فاؤنڈیشن نے نہ صرف پاکستان بلکہ بر صغیر میں فلاحی کام کو ایک انقلابی شکل دی۔ ایدھی فاؤنڈیشن اس وقت بھی وسیع پیمانے پر ایمبولنس سروس، مفت ہسپتال، اور لاوارث بچوں، خواتین اور بوڑھوں کے لیے دارالامان چلا رہی ہے۔ پاکستان میں ایک مثال زبان زد عام رہی ہے کہ حکومت کی سروس سے پہلے ہی ایدھی کی ایمبولنسیں متاثرہ افراد تک پہنچ جاتی ہیں۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے دانش ور ڈاکٹر مہدی حسن کا ایدھی کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’جہاں دنیا میں ایک عام پاکستانی کو فرقہ واریت اور انتہا پسندی کے حوالے سے جانا جاتا ہے وہاں ایدھی نے پاکستان کا ایک مثبت تصور اجاگر کیا۔‘‘
وہ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے مزید کہتے ہیں، ’’ایدھی نے اپنے فلاحی کاموں کا آغاز ایک چھوٹے سے مکان سے کیا اور آج ان کا ادارہ جنوبی ایشیا کے سب سے بڑے غیر ریاستی فلاحی اداروں میں سے ایک ہے۔ پاکستان کے اکثر سیاست دانوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے برعکس ایدھی نے سادگی سے زندگی گزاری اور یہی وجہ ہے کہ عوام نے ان پر محبت اور چندوں کی بارش کی۔‘‘
سینیٹر تاج حیدر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان میں ریاست اپنی زمے داریاں پوری کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ’’اس صورت میں دو طرح کے رجحانات پیدا ہوئے، ایک نجی شعبہ جو منافع کے لیے کام کرتا ہے، اور دوسرا ایدھی جیسے بے لوث لوگ جنہوں نے سرکاری بے حسی کے خلا کو پُر کیا۔‘‘
بعد از مرگ نوبیل انعام کی تحریک
عبدالستار ایدھی کے انتقال سے پہلے بھی پاکستان میں یہ عوامی مطالبہ گردش کرتا رہا تھا کہ ایدھی کو مؤقر نوبل انعام سے نوازا جائے۔ ان کی رحلت کے بعد یہ مطالبہ دوبارہ کیا جا رہا ہے۔ زیادہ تر پاکستانیوں کی رائے ہے کہ اگر کوئی شخص اس انعام کا واقعی حق دار ہے تو وہ ایدھی ہیں۔
پاکستان کی نوبیل انعام یافتہ نوجوان سماجی کارکن ملالہ یوسف زئی کی بھی یہی رائے ہے۔ انہوں نے اِمسال جنوری میں ایک بیان میں کہا تھا کہ ایدھی نوبل انعام کے لیے سب سے بڑے حق دار ہیں۔
تاہم ایدھی خود انعامات اور اعزازات کے شوقین نہ تھے۔ وہ کہتے تھے کہ وہ جو کام کر رہے ہیں، وہ کسی بھی دنیاوی اعزاز سے برتر ہے۔
ایک مرتبہ انہوں نے کہا تھا، ’’میرا کام انسانیت کی خدمت ہے۔ میرا کام مجھے اطمینان دیتا ہے۔‘‘
تاہم ایسا نہیں کہ ایدھی کو کوئی ایوارڈ نہ ملا ہو۔ انیس سو چھیاسی میں انہیں اور ان کی بیوہ بلقیس ایدھی کو رامون میگ سیسے ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ ان کو لینن ایوارڈ اور بالزان ایوارڈ بھی ملا تھا۔ انیس سو نواسی میں انہیں حکومت پاکستان نے اعلیٰ ترین سولین ایوارڈز میں سے ایک نشانِ امتیاز سے بھی نوازا تھا۔
ایدھی کے سیاسی نظریات
ایدھی بڑی حد تک ایک غیر سیاسی شخص تھے، تاہم بعض انٹرویوز میں ان کا کہنا تھا کہ وہ اشتراکیت سے متاثر تھے۔ وہ یقینی طور پر مذہبی و فرقہ وارانہ سیاست اور فوجی آمریتوں کے مخالف تھے۔
تاج حیدر اس بابت کہتے ہیں: ’’پاکستان میں غیر جمہوری قؤتیں ایدھی کو پسند نہیں کرتی تھیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ سماجی انقلاب پر یقین اور فوجی حکومتوں سے عار رکھتے تھے۔‘‘
تاہم ایدھی کے سکیولر اور اشتراکی نظریات کے باوجود مذہبی حلقے اور رہنما بھی انہیں وہی قدر و منزلت دیتے تھے جو کہ ان کا حق تھا۔
جماعت اسلامی کے سابق امیر منور حسن نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایدھی ایک ایسا ادارہ تھے جو کہ ملک کے پس ماندہ طبقے کے لیے کام کرتا تھا۔ ’’انہوں نے مشکل وقت بھی دیکھا مگر اپنے مشن کو جاری رکھا۔‘‘
آج ایدھی ہم میں نہیں ہیں مگر ان کے اہل خانہ اور ایدھی فاؤنڈیشن کے کارکنان ان کا مشن آگے بڑھا رہے ہیں۔ عبدالستار ایدھی نے اپنی زندگی میں اس بات کو یقینی بنا دیا تھا کہ وہ اپنے پیچھے ایک ادارہ چھوڑ جائیں جو ان کے بعد بھی انسانیت کی فلاح کے لیے کام کرتا رہے۔ یہ موت کے بعد امر ہو جانے کی ایک علامت نہیں تو اور کیا ہے؟