عبدالقدوس بزنجو بلوچستان کے نئے وزیر اعلیٰ منتخب کر لیے گئے
29 اکتوبر 2021آج جمعہ انتیس اکتوبر کے روز کوئٹہ میں بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں ہونے والی رائے دہی میں 39 ارکان نے اپنے ووٹ قدوس بزنجو کے حق میں دیے۔ ڈپٹی اسپیکر سردار بابر موسیٰ خیل نے اس اجلاس میں بتایا کہ قائد ایوان کے طور پر انتخاب کے لیے قدوس بزنجو کے مقابلے میں کس دوسرے رکن اسمبلی نے اپنے کاغذات نامزدگی جمع نہیں کرائے تھے۔ ایوان میں پی ڈی ایم سے تعلق رکھنے والی جماعتیں جمعیت علمائے اسلام (ف)، بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل)، پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور آزاد رکن نواب اسلم رئیسانی نے ووٹنگ میں حصہ نہ لیا۔
اپنے انتخاب کے بعد نئے وزیر اعلیٰ نے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔ حلف برداری کی تقریب گورنر ہاؤس کوئٹہ میں منعقد ہوئی، جہاں صوبائی گورنر سید ظہور آغا نے قدوس بزنجو سے حلف لیا۔ سن 2002 سے سیاست میں سرگرم عبدالقدوس بزنجو کا تعلق بلوچستان میں حکومت مخالف مسلح گروپوں کا گڑھ سمجھے جانے والے ضلع آواران کی تحصیل جاؤ شندی سے ہے۔
قدوس بزنجو نے 2013 کے عام انتخابات میں اپنے حلقے سے صرف 544 ووٹ حاصل کر کے صوبائی اسمبلی کی ایک نشست پر کامیابی حاصل کی تھی۔ نو منتخب وزیر اعلیٰ قدوس بزنجو کے والد عبدالمجید بزنجو بھی بلوچستان اسمبلی کے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کےعہدوں پر فائر رہے تھے۔ نئے وزیر اعلیٰ کو غیر متوقع طور پرحکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں کے ساتھ ساتھ صوبے میں متحدہ اپوزیشن کی بھی بھرپورحمایت حاصل ہے۔
قدوس بزنجو کا اسمبلی میں بیان
بلوچستان اسمبلی کے آج کے اجلاس میں اپنا ایک پالیسی بیان دیتے ہوئے عبدالقدوس بزنجو نے کہا کہ انہیں سب نے مل کر وزیر اعلیٰ نامزد کیا ہے اور وہ خود سے کی جانے والی توقعات پر پورا اترنے کی کوشش کریں گے۔ انہوں نے کہا، ''تمام اہم معاملات سے بخوبی آگاہ ہیں ۔ وقت آ گیا ہے کہ بلوچستان کے مستقبل کے فیصلے یہاں کے عوام کی مرضی کے مطابق کیے جائیں۔ ہمیں جو مینڈیٹ دیا گیا ہے، یہ اس کا تقاضا ہے کہ صوبے میں بحرانوں کو ختم کرنے کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ ماضی میں عوام سے صرف وعدے کیے گئے۔ ہماری کوشش ہو گی کہ پہلے کام کریں اور پھر اس کے ہو جانے کا اعلان کریں۔‘‘
نو منتخب وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ سیاست میں اختلاف رائے مثبت رجحانات کو فروغ دیتا ہے ۔ ان کے بقول، ''جام کمال نے مشکل وقت میں یہاں کام کیا ۔ ان کے ساتھ کوئی اختلاف نہیں۔ ان کے تجربے سے استفادے کی کوشش کروں گا۔ کوشش ہے کہ سب کو ساتھ لے کر آگے بڑھوں تاکہ صوبے میں تمام اہم معاملات میں بہتری کے لیے اپنا کردار ادا کر سکوں۔‘‘
جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد
قدس بزنجو کے پیش رو وزیر اعلیٰ جام کمال کے خلاف 34 اراکین اسمبلی نے 20 اکتوبر کو ایک تحریک عدم اعتماد پیش کر دی تھی۔ اس کے بعد جام کمال 24 اکتوبر کو اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے تھے۔
دسمبر2017 میں مسلم لیگ ن کے صوبائی صدر نواب ثناء اللہ زہری کی حکومت کے خاتمے میں بھی عبدالقدوس بزنجو نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ اس تحریک کی کامیابی کےبعد جنوری 2018 سے سات جون 2018 تک وہ پہلے بھی ایک مرتبہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں۔ اس صورت حال کا ایک اور دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ سابق وزیر اعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری بھی قدوس بزنجو کے حامی اراکین اسمبلی میں شامل تھے۔
نواب ثناء اللہ زہری نے دو روز پہلے کوئٹہ میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران یہ موقف اختیار کیا تھا کہ عبدالقدوس بزنجو کی حمایت کا فیصلہ انہوں نے اپنی پارٹی قیادت کی ہدایت پر کیا ہے۔ ثناءاللہ زہری نے کچھ عرصہ قبل پاکستان مسلم لیگ ن سے مستعفی ہو کر پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کر دیا تھا۔
جام کمال کی درخواست
بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ جام کمال نے اپنے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کیے جانے کے بعد پاکستانی وزیر اعظم عمران خان سے معاملات میں بہتری کے لیے مداخلت کی درخواست بھی کی تھی۔ انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں مرکزی حکومت کے بعض عہدیداروں پر بلوچستان کے معاملات میں مداخلت کا الزام بھی لگایا تھا۔
جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے وفاقی وزیر پرویز خٹک اور سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی نےکوئٹہ میں کئی روز تک قیام کیا تھا۔ ان رہنماؤں کے دورہ کوئٹہ کے دوران قدوس بزنجو کے حق میں کئی ناراض اراکین سے مذاکرات بھی کیے گئے تھے۔ جام کمال کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت ایک منظم سازش کے تحت ختم کی گئی۔
منتخب حکومتوں کے خلاف 'منظم سازشوں کی روایت‘
بلوچستان میں سیاسی امور کے تجزیہ کار فرمان رحمان کہتے ہیں کہ صوبے میں منتخب حکومتوں کے خلاف ہمیشہ منظم سازشیں ہوئی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''ماضی کی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ پاکستان میں مقتدر قوتیں ہمیشہ اپنی مرضی کے مطابق حکومتیں بنانے اور ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کرتی رہی ہیں۔ بلوچستان میں کسی خود مختار حکومت کی تشکیل کبھی کامیاب نہیں ہوئی۔ یہاں مخلوط حکومتیں اس لیے بنتی ہیں کہ کوئی ایک جماعت اتنی خود مختار نہ ہوکہ آزادانہ طور پر کوئی فیصلے کر سکے۔ مخلوط حکومتوں پر عدم اعتماد کی تلوار لٹکا کر انہیں مفادات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔‘‘
فرمان رحمان کا مزید کہنا تھا کہ قدرتی وسائل سے مالا مال صوبے بلوچستان میں اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے بغیر کوئی حکومت قائم نہیں ہو سکتی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جب ملک میں کوئی سیاسی بحران جنم لیتا ہے، تو آغاز بلوچستان سے ہی کیا جاتا ہے۔ آپ نے دیکھا کہ پچھلے دور حکومت میں جب یہاں مسلم لیگ ن کی اتحادی حکومت ختم ہوئی، تو مرکز میں نواز شریف کو مختلف الزامات کے تحت ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ اس سے قبل بلوچستان میں پیپلز پارٹی کی نمائندہ حکومت بھی گورنر راج نافذ کر کے ختم کی گئی تھی۔ اس وقت کے وزیر اعلیٰ نواب اسلم رئیسانی کا بیان ریکارڈ پر ہے، جس میں انہوں نے واضح کیا تھا کی ان کی حکومت اس لیے ختم کی گئی تھی کیونکہ انہوں نے سونے کے وسیع ذخائر کے حامل منصوبے ریکوڈک کا معاہدہ منسوخ کر دیا تھا۔‘‘
اپوزیشن رہنما کا موقف
بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن رہنما ملک سکندر کے بقول صوبے کی نئی مخلوط حکومت کی پالیسیوں میں اولین ترجیح مرکز نہیں بلکہ صوبہ ہی ہونا چاہیے۔ کوئٹہ میں ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نےکہا، ''بلوچستان آج جس موڑ پر کھڑا ہے، اس کے ذمہ دار ماضی کے وہ حکمران ہیں، جنہوں نے یہاں زمینی حقائق کے برعکس اقدامات کیے۔ نئی حکومت سے عوام کو بہت توقعات ہیں۔ نئے وزیر اعلیٰ کو عوام سے کیے گئے وعدوں کو پورا کرنا ہو گا۔‘‘
ملک سکندر کا کہنا تھا کہ ماضی میں بلوچستان کے سیاسی معاملات پر اگر سنجیدگی سے توجہ دی جاتی، تو آج حالات اتنے خراب نہ ہوتے۔ ان کے مطابق، ''بلوچستان کو موجودہ بحرانوں سے نکالنے کے لیے دور رس نتائج کے حامل اقدامات کی ضرورت ہے۔ نئی مخلوط حکومت صوبے میں سیاسی استحکام کے ساتھ ساتھ مالی بے ضابطگیوں کے خلاف اور دیگر اہم معاملات میں بھی بہتری کی لیے ایک جامع پالیسی ترتیب دے۔ قومی منصوبوں میں بلوچستان کے مفادات کو نظر انداز کرنے کی پالیسی ترک کی جانا چاہیے۔‘‘