1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عبرت ناک شکست کے بعد پیپلز پارٹی کا مستقبل کیا ہوگا؟

Kishwar Mustafa13 مئی 2013

چاروں صوبوں میں نمایاں موجودگی کی حامل پاکستان کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کو حالیہ انتخابات میں بھاری شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے اور وہ اب سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/18Wxq
تصویر: AP

انتخابات میں ناکامی پر پنجاب کے گورنر مخدوم احمد محمود نے بھی استعفی دے دیا ہے، اور اس صورت حال نے پیپلز پارٹی کے مستقبل کے حوالے سے کئی سوالیہ نشان پیدا کر دیے ہیں۔

اب تک موصول ہونے والے غیر حتمی نتائج کے مطابق قومی اسمبلی کی دو سو بہتر نشستوں میں سے پیپلز پارٹی صرف تینتیس نشستیں حاصل کر سکی ہے، دو ہزار آٹھ کے انتخابات میں اسے اٹھاسی نشستیں ملی تھیں، پنجاب کی دو سو ستانوے صوبائی نشستوں میں سے یہ پارٹی صرف چھہ سیٹیں حاصل کر سکی ہے، جبکہ دو ہزار آٹھ کے انتخابات میں اسے یہاں اٹھتر نشستیں ملی تھیں، ننانوے صوبائی نشستوں کے حامل خیبر پختونخواہ صوبے سے سن دو ہزار آٹھ کے انتخابات میں اٹھارہ نشستیں حاصل کرنے والی پاکستان پیپلز پارٹی کو حالیہ انتخابات میں یہاں صرف دو نشستیں مل سکیں ہیں۔

بلوچستان اسمبلی کی اکاون نشستوں میں سے دو ہزار آٹھ کے انتخابات میں تین سیٹیں حاصل کرنے والی پیپلز پارٹی کو ابھی تک یہاں ایک بھی سیٹ نہیں مل سکی حالانکہ یہاں اڑتالیس سیٹوں کا غیر حتمی نتیجہ سامے آچکا ہے، پیپلز پارٹی کا گڑہ سمھجی جانے والی سندہ اسمبلی کی ایک سو تیس نشستوں سے پچھلے انتخابات میں اس جماعت کو اکہتر سیٹیں ملی تھیں لیکن موجودہ انتخابات میں ابھی تک اسے اکسٹھ سیٹیں مل سکی ہیں اور گیارہ نشستوں کے نتائج ابھی آنا باقی ہیں۔

Pakistan Frauen feiern Sieg von Präsident Asif Ali Zardari bei Wahl
پیپلز پارٹی کو خواتین کی حمایت بھی حاصل رہی ہےتصویر: AP

پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے امور پر تحقیق کرنے والے ایک تجزیہ نگار سلمان عابد کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی انتخابی شکست کی وجہ اس کی غلط انتخابی حکمت عملی تھی، ان کے بقول اس پارٹی کی طرف سے صرف سندھ اور جنوبی پنجاب پرفوکس کرنا، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام پر انحصارکرنا اور وسطی پنجاب کے بیس حلقوں کے الیکٹیبلز کو وسیع ترقیاتی فنڈزدے کران سے انتخابی کامیابی کی توقع وابستہ کرنا عوامی رابطوں اور گڈ گوورننس کا متبادل نہیں ہو سکتا تھا، ان کے مطابق پیپلز پارٹی کا نون لیگ کے خلاف میڈیا میں اشتہاری مہم چلا کر عمران کو فائدہ پہنچا اور اس طرح اُس کا نون لیگ کے ووٹ کم کرنے کا حربہ بھی کارگر ثابت نہیں ہو سکا۔

سلمان عابد کے مطابق پیپلز پارٹی کو صرف انتخابات میں ہی شکست ہوئی ہے، پاکستانی سیاست میں اس کا اثر اب بھی موجود ہے، سینٹ میں اس کو اکثریت حاصل ہے، اس کے نظریے سے محبت کرنے والے ووٹرزآج بھی موجود ہیں،اگر پیپلز پارٹی اپنی غلطیوں کی اصلاح کر لے تو یہ اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کر سکتی ہے، پیپلزپارٹی کے امور کو پچھلے بیس برسوں سے کور کرنے والے سینیئر صحافی جاوید فاروقی کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی نے اپنا نظریہ چھوڑ کر، اپنے کارکنوں کو نظراندازکرکے پاور پالیٹکس کا راستہ اپنایا اور الیکٹ ایبلز پر توجہ دی، ان کے بقول یہ تجربہ کامیاب نہیں ہوسکا۔ ان کے مطابق سکیورٹی خدشات کی وجہ سے پیپلز پارٹی کے رہنما عوام سے دور ہوتے چلے گئے، پارٹی کی تنظیم سازی بھی نہیں ہو سکی، انتخابی مہم بغیر کسی لیڈر کے چلتی رہی، رہی سہی کسر بم دھماکوں نے پوری کردی اور اس صورت حال کا نتیجہ سب کے سامنے ہے، جاوید فاروقی کے مطابق پیپلزپارٹی کو ستانوے کے انتخابات میں صرف سترہ سیٹیں ملی تھیں لیکن بے بظیر بھٹو اپنی جلاوطنی کے باوجود پارٹی کارکنوں سے رابطے میں رہی اوراس پارٹی نے دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں دوبارہ کامیابی حاصل کی ، ان کے بقول پیپلز پارٹی اب بھی اپنے نظریے اور کارکنوں کی طرف لوٹ کر غلطیوں کی اصلاح کرلے تو اسے مستقبل میں پذیرائی مل سکتی ہے

BdT Pakistan, Erinnerungsfeier an Benazir Bhutto
پیپلز پارٹی کے حامی بھٹو فیملی کے وفادار ہیںتصویر: AP

پیپلز پارٹی کی ایک ناراض رہنما اور بے نظیر بھٹو کی ایک قریبی ساتھی ناہید خان نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے لیے پیپلز پارٹی کی شکست غیر متوقع نہیں ہے، کیونکہ پارٹی ایسے غیر نظریاتی لوگوں کے حوالے کی جا چکی ہے جو پارٹی کو مضبوط کرنے کی بجائے اپنے اقتدار کو مضبوط بنانے میں لگے رہے اور ایم کیو ایم، اے این پی اور ق لیگ کے ہاتھوں یرغمال بنے رہے، ناہید خان پیپلز پارٹی کی مقبولیت کی بحالی کے زیادہ امکانات نہیں دیکھتیں، البتہ ان کا مطالبہ ہے کہ اس شکست کے بعد پارٹی قیادت اپنے عہدوں سے مستعفی ہو جائیں اور پارٹی انتخابات کروا کر پارٹی کو جمہوری انداز میں چلایا جائے تو اس سے صورت حال بہتر ہو سکتی ہے۔ ناہید خان کے بقول اب بلاول بھٹو کو بھی اگر سیاست میں رہ کر پارٹی کو بچانا ہے تو اسے واضح طور پر یہ فیصلہ کر نا ہو گا کہ اسے اپنے نانا اور شہید والدہ کے نظریے کے ساتھ چلنا ہے یا پھر اپنے والد کے کئے گئے کاموں کا بوجھ اٹھانا ہے۔

ادھر پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات قمر الزماں کائرہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ انتخابات میں پارٹی کی شکست ان کے لیے لمحہ فکریہ ہے، اور پارٹی اس حوالے سے غوروخوض اور صورتحال کا تجزیہ کرکے اپنی اصلاح کرے گی۔

ایک سوال کے جواب میں انھوں نے بتایا کہ میڈیا پیپلز پارٹی کے خلاف تھا، عدالتوں کے ساتھ بھی ماحول خوشگوار نہیں تھا،امن و امان اور مہنگائی جیسے صوبائی امور کی ذمہ داری بھی وفاق پر ڈالی جاتی رہی، بجلی کے بحران پر قابو پانے کی کوشش ضرور کی گئی، آئینی حوالے سے بھی کئے اچھے کام کیے مگر اس کو کسی نے پیش نظرنہیں رکھا۔ نظریاتی کارکنوں کے نظر انداز کیے جانے کے حوالے سے پوچھے جانے والے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ آج کی دنیا یونی پولر ہے، اب ماضی کی طرح کے دائیں اور بائیں بازو کی تفریق باقی نہیں رہی، ان کے مطابق پیپلز پارٹی کی واپسی کے سو فیصد امکانات ہیں، "سیاسی جماعتوں پر ایسے وقت آتے رہتے ہیں، ہم ضرور کم بیک کریں گے۔"

رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور

ادارت: کشور مصطفیٰ