عدالت نے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو سزائے موت سنا دی
10 اپریل 2017یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے پاکستان میں پھیل گئی۔ پاکستان کے متحرک میڈیا میں اس خبر پر خوب تبصرے ہو رہے ہیں۔ میڈیا نے اس خبر کو بھر پور کوریج دی ہے۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر بھی اسی خبر کی دھوم ہے۔
پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے بھی اس خبر کا خیر مقدم کیا ہے۔ پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق وزیرِ داخلہ رحمان ملک، تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اسد عمر اور جماعتِ اسلامی کے امیر سراج الحق سمیت کئی سیاسی رہنماؤں نے اس سزا کا خیر مقدم کیا ہے جب کہ پنجاب کے وزیرِ قانون رانا ثناء اللہ نے بھی اس سزا کو درست قرار دیا ہے۔
اس خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے نیشنل یونیورسٹی فار سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ادارہ برائے عالمی امن و استحکام سے وابستہ ڈاکڑ بکر نجم الدین نے ڈوئچے ویلے کو بتایا:’’میرے خیال میں پاکستان نے یہ قدم اٹھا کر بھارتی ایجنٹوں اور نئی دہلی کو ایک سخت پیغام دیا ہے۔ اگر پاکستان کا بھی کوئی ایجنٹ بھارت کی حراست میں ہے تو نئی دہلی خاموش سفارت کاری کرے گا اور پاکستان کا جاسوس ہمارے حوالے کر سکتا ہے اور بدلے میں اپنا جاسوس لے لے گا۔ ممالک کے درمیان اس طرح کی معاملات ہوتے رہتے ہیں۔ جیسے کہ شمالی کوریا نے امریکا کے جاسوس پکڑے اور جواب میں امریکا نے اُس کے جاسوس پکڑے اور پھر دونوں ممالک نے ان کا تبادلہ کر لیا۔ شمالی کوریا نے کچھ رعایات بھی لی ہوں گی۔ تو بھارت بھی ایسا کر سکتا ہے بشرطیکہ اس کے پاس بھی کوئی پاکستانی ایجنٹ ہو۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر نئی دہلی سفارتی دباؤ بڑھائے گا اور امریکا کوخصوصاً کہے گا کہ واشنگٹن ہم پر دباؤ ڈالے۔
اس کے علاوہ برطانیہ اور دوسرے یورپی ممالک سے بھی نئی دہلی بات چیت کرے گا کیونکہ ان ممالک کے بھارت سے تجارتی مفادات وابستہ ہیں۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا،’’ایجنٹوں کو عموماً یہ تربیت دی جاتی ہے کہ اگر وہ پکڑے گئے تو پھر متعلقہ ملک یہ نہیں کہے گا کہ وہ ہمارا شہری ہے لیکن بعض معاملات میں اگر ایجنٹ بہت زیادہ اہم ہو تو پھر خاموش طریقے سے بہت ساری سرگرمیاں اس کی رہائی کے لیے شروع کی جاتی ہیں۔ اگر یہ ایجنٹ اہم ہے تو بھارت بھی ایسا ہی کرے گا۔‘‘
لیکن کیا اس بھارتی ایجنٹ کو فوری طور پر پھانسی دے دی جائے گی یا پھر اس کے پاس کوئی ایسا قانونی راستہ ہے کہ وہ اپنی سزا کو چیلنج کر سکے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے معروف قانون دان لطیف آفریدی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا:’’پاکستانی آئین کا آرٹیکل چار کسی بھی انسان کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ قانون کی نظر میں برابر ہونے کا حق استعمال کرے۔ اس آرٹیکل کی روشنی میں قانون سب کے لیے برابر ہے، چاہے وہ کوئی غیر ملکی ہی کیوں نہ ہو۔ پہلے تو اس ایجنٹ کے کیس میں یہ دیکھنا ہو گا کہ آیا اس نے ملٹری کورٹ کی جیورسڈکشن کو چیلنج کیا تھا یا نہیں۔ اگر اس نے ایسا نہیں کیا تو وہ پہلے اس فیصلے کے خلاف آرمی چیف کو اپیل کرے گا۔ اسے یہ اپیل چالیس دن کے اندر اندر کرنا ہو گی۔ اگر وہاں یہ اپیل مسترد ہو جاتی ہے تو پھر وہ ہائی کورٹ جائے گا اور ہائی کورٹ نے بھی یہ اپیل مسترد کر دی تو ساٹھ دن میں اسے اپنی اپیل سپریم کورٹ میں داخل کرانا ہو گی۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا:’’ہائی کورٹ میں اپیل سننے کے لیے وقت کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ وہ اپیل پر فیصلہ ایک دن میں بھی کر سکتے ہیں اور اس پر کئی سال بھی لگ سکتے ہیں۔ لیکن چونکہ یہ اسپیشل کیس ہے، اس لیے میرا خیال ہے کہ ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ ترجیحی بنیادوں پر اس ایجنٹ کی اپیلیں سن کر فیصلہ دے سکتی ہیں۔‘‘