عدالت کا آسٹریلیا اور ملائیشیا کے معاہدے کے خلاف فیصلہ
8 اگست 2011آسٹریلیا کی ہائی کورٹ نے آج پیر کو کینبرا میں سماعت کے دوران کہا کہ 22 اگست کو اگلی سماعت میں اس معاملے کا جائزہ لیا جائے گا۔ عدالت کے اس فیصلے سے وزیر اعظم جولیا گیلارڈ کی سرحدی سلامتی کی پالیسی تعطل کا شکار ہو گئی ہے۔
آسٹریلیا اور ملائیشیا کے درمیان حال ہی طے پانے والے ایک معاہدے کے تحت آسٹریلیا کشتی کے ذریعے ملک میں پہنچنے والے افراد میں سے آٹھ سو کو واپس ملائیشیا بھیج دے گا اور اس کے بدلے ملائیشیا کی جانب سے ان 4 ہزار 8 سو افراد کو قبول کرے گا، جنہیں باقاعدہ مہاجر کی حیثیت دی جا چکی ہے۔
کشتیوں میں سوار ہو کر آسٹریلیا پہنچنے والے پناہ کے متلاشی افراد کی نمائندگی کرنے والے وکلاء نے ہائی کورٹ آف آسٹریلیا میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کے پاس انہیں ملائیشیا بھجوانے کا قانونی اختیار نہیں ہے۔
ہائی کورٹ کے جج کینتھ ہائن نے کہا، ’یہ مقدمے میں کافی سنگین سوال ہے‘۔ بعد میں انہوں نے مقدمے کو عدالت کے فل بنچ کے حوالے کر دیا، جو 22 اگست کو اس پر غور کرے گا۔
اس سے قبل وزیر اعظم گیلارڈ کی حکومت نے مشرقی تیمور کے ساتھ کشتی میں سوار پناہ کے متلاشی افراد کو قبول کرنے کا معاہدہ کیا تھا مگر وہاں کی پارلیمان نے اسے مسترد کر دیا تھا۔ اگر وہ ملائیشیا کے ساتھ بھی معاہدے میں ناکام ہو گئیں تو رائے دہندگان میں یہ احساس زور پکڑ جائے گا کہ ان کی حکومت پالیسی بنانے کی اہلیت نہیں رکھتی اور وہ اپنے بڑے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔
آسٹریلیا میں پناہ طلب کرنے والوں کا مسئلہ کافی عرصے سے سیاسی رنگ اختیار کر چکا ہے اور اس سے گزشتہ انتخابات کے نتائج پر بھی فرق پڑا ہے۔
آسٹریلوی حکومت نے اس معاہدے کے تحت 16 افراد کو آج ملائیشیا بھیجنا تھا۔ یہ افراد ایک کشتی میں سوار ہو کر گزشتہ ہفتے کے اختتام پر آسٹریلیا پہنچے تھے۔ کشتی میں سوار 54 افراد میں سے 19 بچے تھے اور ان میں سے 14 کے ہمراہ کوئی بالغ نہیں تھا۔
پناہ طلب کرنے والے افراد کے وکلاء نے اپنے دلائل میں مزید کہا کہ لوگوں کو ایسے ملک بھیجنا غیر قانونی ہے، جس نے انسانی حقوق کے تحفظ سے متعلق بین الاقوامی قوانین پر دستخط نہیں کیے ہوئے۔
انسانی حقوق کے بین الاقوامی ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ترجمان گراہم تھوم نے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا، ’ہائی کورٹ کا آج کا فیصلہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے اس مؤقف کی تائید ہے کہ ملائیشیا کے ساتھ ہونے والا معاہدہ غیر انسانی، غیر موزوں اور آسٹریلوی اور بین الاقوامی قوانین کے تحت ممکنہ طور پر غیر قانونی ہے‘۔
ایمنسٹی نے کہا کہ اس کے پاس ملائیشیا میں پناہ طلب کرنے والے افراد کے خلاف انسانی حقوق کی متعدد خلاف ورزیوں کا دستاویزی ریکارڈ موجود ہے، جن میں من مانی گرفتاریاں، تشدد، مزدوروں کا استحصال اور جنسی زیادتیاں شامل ہیں۔ گراہم تھوم نے کہاکہ اس معاہدے سے انسانی اسمگلروں کو سزا دینے کی بجائے بچوں کو سزا دی جا رہی ہے۔
ملائیشیا کے ساتھ حالیہ معاہدہ مختلف حراستی مراکز میں تشدد اور مظاہروں کے بعد کیا گیا ہے۔ ان میں سے سب سے بڑا حراستی مرکز بحر ہند کے کرسمس آئی لینڈ پر واقع ہے، جو پناہ کے متلاشی افراد سے کھچا کھچ بھرا ہوا ہے۔
رپورٹ: حماد کیانی
ادارت: امجد علی