عدالتی جنگ ہارنے کے بعد یہودی آباد کار گھر ختم کر دیے گئے
12 جون 2018جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق نتيف ہا أفوت نامی علاقے میں تعمیر کیے گئے 15 آباد کار گھروں کو خالی اور انہیں منہدم کرنے کا عمل قریب ایک دہائی تک جاری رہنے والی قانونی جنگ کے بعد عمل میں آیا ہے جس میں سات فسلطینی اپنے گھروں میں واپسی کا حق حاصل کرنے کے لیے کوشاں تھے۔ ان فلسطینیون کو آباد کاری کے خلاف کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم کی مدد بھی حاصل تھی۔
ستمبر 2016ء میں اسرائیلی ہائیکورٹ نے فلسطینیوں کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے نتيف ہا أفوت کے علاقے میں 17 عمارتوں کو خالی کرنے کا حکم دیا تھا جن میں سے دو پہلے ہی خالی کی جا چکی تھیں۔ آج منگل 12 جون کو سینکڑوں یہودی اس مقام پر جمع ہو گئے جو ان آباد کار گھروں کو خالی کرنے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔
نتيف ہا أفوت ایسی یہودی آباد کاری تھی جو حکومتی اجازت کے بغیر کی گئی۔ اسرائیلی قبضے میں موجود مغربی کنارے کے علاقے میں زیادہ تر یہودی آباد کاری اسرائیلی حکومت کی مدد سے ہی کی گئی ہے۔ یہودی آباد کاری کے حامی مظاہرین ان گھروں کے خاتمے کے رد عمل میں اب اس علاقے میں 350 گھر تعمیر کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔
نتيف ہا أفوت کے علاقے میں اپنے جگہ کے حصول کی قانونی جنگ لڑنے والے فلسطینیوں کے ساتھ یہودی آباد کاری کے خلاف کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ’پِیس ناؤ‘ نے بھی اسرائیلی ہائیکورٹ میں پٹیشن دائر کی تھی۔ اس تنظیم کی طرف سے پیر کے روز کہا گیا، ’’ہمیں امید ہے کہ اس بے دخلی سے ایک واضح پیغام جائے گا کہ جرم کی قیمت چُکانا پڑتی ہے اور یہ کہ اگر کوئی زمین خریدے یا اس بارے میں اجازت لیے بغیر عمارت تعمیر کرے گا تو اسے حتمی طور پر اُسے چھوڑنا ہی پڑے گا۔‘‘
اس این جی جو کی طرف سے مزید کہا گیا، ’’ہم سکیورٹی اداروں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان فلسطینیوں مالکان کو اپنی زمین پر واپسی کی اجازت دی جائے جنہوں نے 17 برس تک اس کے لیے انتظار کیا۔‘‘