عراق جنگ کی 20 ویں سالگرہ سے قبل امریکی وزیر دفاع بغداد میں
8 مارچ 2023امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے سات مارچ منگل کے روز بغداد کا غیر اعلانیہ دورہ کیا، جہاں انہوں نے عراق کے وزیر اعظم محمد شیعہ السودانی سے ملاقات کی۔ انہوں نے کہا کہ وہ عراق پر امریکی حملے کی 20ویں برسی کے موقع پر ''تعلقات کو مضبوط اور وسیع کرنے'' کی امید رکھتے ہیں۔
عراقی قانون سازوں نے بالآخر ملک کے نئے صدر کا انتخاب کر لیا
آسٹن نے عراق کے وزیر اعظم کو بتایا کہ امریکی فورسز بغداد کی دعوت پر عراق میں ''رہنے کے لیے تیار'' ہیں۔
عراق میں سیاسی تعطل ختم کرنے کے لیے بائیڈن کا قومی مکالمے پر زور
آسٹن نے عراقی وزیر اعظم السودانی اور وزیر دفاع ثابت العباسی کے ساتھ ملاقات کے بعد صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''میں اپنی شراکت داری کے مستقبل کے بارے میں پر امید ہوں۔ امریکہ عراق کی سلامتی، استحکام اور خود مختاری کی حمایت کے لیے اپنی شراکت داری کو مضبوط اور وسیع کرتا رہے گا۔''
عراق: پولیس اور ایران نواز مظاہرین میں تصادم، درجنوں زخمی
سودانی نے بھی آسٹن کو امریکہ کے ساتھ ''تعلقات کو مضبوط اور مستحکم'' کرنے کی عراق کی مشترکہ خواہش کے بارے میں بتایا۔ تاہم انہوں نے ''علاقائی اور بین الاقوامی طاقتوں کے ساتھ متوازن تعلقات برقرار رکھنے'' کے عراقی عزم پر بھی زور دیا۔
عراق میں بڑھتی کشیدگی اور شیعہ گروپوں میں تقسیم
امریکی فوج عراق میں کیوں موجود ہے؟
گرچہ عراق نے سن 2021 کے اواخر میں عسکری کارروائیوں کو باضابطہ طور پر ختم کرنے کا اعلان کیا تھا، تاہم اب بھی تقریباً 2500 امریکی فوجی تربیت فراہم کرنے کے لیے عراق میں تعینات ہیں۔
آسٹن کا کہنا تھا کہ یہ ضروری ہے کہ امریکہ ''اس اہم کام کو محفوظ طریقے سے انجام دے سکے۔''
انہوں نے ''عراق میں اتحادی افواج کو یقینی بنانے کے عزم'' کے لیے سودانی اور عباسی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے مزید کہا کہ اس سے ملک ''ریاستی اور غیر ریاستی عناصر سے محفوظ رہے گا۔''
سن 2003 میں جب سے امریکہ نے عراق پر حملہ کر کے صدام حسین کی حکومت کا تختہ الٹا تبھی سے ملک میں طاقت کا ایک ایسا خلا پیدا ہوا کہ اس کی وجہ سے خطے میں اب بھی سلامتی تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے۔
عراق میں امریکی فوجیوں کی مسلسل موجودگی پر امریکہ اور عراق دونوں میں ہی رائے بھی منقسم ہے۔
آسٹن نے کردوں اور عراقیوں سے متحد ہونے کی اپیل کی
امریکی وزیر دفاع اور سودانی نے عراق کے خود مختار کرد علاقے کے صدر نیشروان برزانی سے بھی ملاقات کی۔ بہت سے دیگر اختلاف کے ساتھ ہی اربیل اور بغداد ایک طویل عرصے سے عراق کے بجٹ اور قومی و علاقائی حکومتوں کے درمیان تیل کی آمدن کے اشتراک کے مسئلے پر جھگڑتے رہے ہیں۔
آسٹن نے برزانی کے ساتھ بات چیت کے بعد کہا، ''اربیل اور بغداد کو تمام عراقیوں کی بھلائی کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے اور کرد رہنماؤں کو اپنے اختلافات ایک طرف رکھ کر ایک محفوظ اور خوشحال عراقی کرد علاقے کی تعمیر کے لیے متحدہ ہونا چاہیے۔''
عراق جنگ کے لیے امریکہ کو بڑی قیمت چکانی پڑی
امریکی حملے کے بعد سے ہی عراق کو دو دہائیوں سے افراتفری اور بد نظمی کا سامنا ہے۔ جارج ڈبلیو بش کی انتظامیہ نے ''دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ'' کے لیے 20 مارچ سن 2003 کو عراق پر ایک انتہائی متنازعہ حملہ شروع کرنے کا انتخاب کیا۔
امریکہ نے اس کے لیے یہ قابل اعتراض جواز پیش کیے تھے کہ صدام حسین کی حکومت کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں۔ اس پر بہت سے لوگوں کو اعتراض بھی تھا، تاہم بش انتظامیہ نے اسی کو بنیاد بنا کر حملہ کیا۔
ایسے کوئی ہتھیار کبھی نہیں ملے
عراق پر صدام حسین کی قیادت میں سنیوں کی حکومت تھی اور ان کی معزولی کے بعد سے مختلف اختیارات کی تقسیم کے انتظامات کے تحت اب تک کئی حکومتیں اقتدار سنبھالتی رہی ہیں۔
تاہم اس میں سے بیشتر حکومتوں کے عراق کے شیعہ ہمسایہ ملک ایران کے ساتھ قریبی تعلقات رہے ہیں جو امریکہ کا بھی ایک دیرینہ دشمن مانا جاتا ہے۔
عراق میں تیل اور گیس کے وسیع ذخائر ہونے کے باوجود سیکورٹی کی صورتحال کے عدم استحکام اور سیاسی تعطل کی وجہ سے انفراسٹرکچر اور عوامی خدمات میں سرمایہ کاری نہیں ہو سکی ہے، اس لیے ملک میں شدید قسم کی غربت کا ماحول ہے۔
لائیڈ آسٹن ہی عراق میں امریکی افواج کے آخری کمانڈنگ جنرل تھے اور اب انہوں نے صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ میں بطور وزیر دفاع بغداد کا دورہ کیا ہے۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، روئٹرز)