عراق فرقہ ورانہ تشدد کی لپیٹ میں
17 جون 2013عراق میں آج پیر کو دارالحکومت بغداد کے نزدیک ہونے والے بم حملوں میں مزید کم از کم 10 افراد ہلاک ہو گئے۔ اس طرح دو روز کے اندر اندر تشدد کے مختلف واقعات میں ہلاکتوں کی تعداد 50 سے تجاوز کر گئی ہے۔
عراق کے گنجان آباد شہر تاجی میں آج شدید نوعیت کے دو دھماکے ہوئے۔ پہلا دھماکہ ایک ریستوران کے اندر جبکہ دوسرا ایک منی بس کے اندر نصب بم کے پھٹنے سے ہوا۔ بغداد سے شمال کی طرف واقع یہ علاقہ ایک ہائی وے کے ذریعے بغداد کو سنی اکثریتی آبادی والے متعدد شمالی شہروں سے ملاتا ہے۔ مقامی ذرائع کے مطابق ریستوران کے اندر ہونے والے بم دھماکے کے نتیجے میں دو خواتین اور ایک بارہ سالہ بچے سمیت کم از کم سات افراد ہلاک ہوئے۔ دو پولیس اہلکاروں نے بتایا کہ اس حملے میں 25 دیگر افراد زخمی ہوئے ہیں۔
تاجی میں گزشتہ روز بھی متعدد کار بم حملے اور فائرنگ کے واقعات رونما ہوئے تھے۔ اتوار کو تاجی اور فلوجہ میں ہونے والے متعدد بم حملوں میں کم از کم 33 جانیں ضائع ہوئی تھیں۔ یہ حملے زیادہ تر شیعہ علاقوں میں ہوئے تھے۔ اتوار کے روز جنوبی اور وسطی عراق کو ہلاک کر رکھ دینے والے ان پُر تشدد حملوں کو ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ ورانہ کشیدگی کے تناظر میں ایک بڑا خطرہ سمجھا جا رہا ہے۔ دو روز کے اندر متعدد حملوں میں 51 افراد کی ہلاکت کا سبب بننے والے واقعات کو 2008 ء سے اب تک عراق میں ہونے والی بد ترین خونریزی قرار دیا جا رہا ہے۔ گزشتہ روز ہونے والے پُر تشدد واقعات کی ذمہ داری کسی بھی گروپ یا تنظیم نے قبول نہیں کی۔ ملک میں گزشتہ کچھ عرصے سےالقاعدہ سے تعلق رکھنے والے سنی شدت پسندوں نے حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے لیے کئی حملے کیے ہیں، جن میں عام شہریوں اور سرکاری اہلکاروں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
پولیس کے مطابق آج تاجی میں ایک بس کے اندر ہونے والے بم دھماکے میں دو مسافر ہلاک جبکہ 11 دیگر زخمی ہو گئے۔ یہ علاقہ ماضی میں باغیوں کا گڑھ رہ چکا ہے اور عراقی دار الحکومت سے شمال کی جانب 20 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
فلوجہ انبار کا حصہ ہے اور بغداد سے 65 کلو میٹر کے فاصلے پر مغرب کی طرف واقع ہے۔ یہاں اور ایک اور سنی اکثریتی صوبے نینوا میں اس سال اپریل میں صوبائی انتخابات کا انعقاد ہونا تھا تاہم سکیورٹی کی تشویشناک صورتحال کے سبب انتخابات ملتوی کر دیے گئے تھے۔ اب ان علاقوں میں ووٹنگ آئندہ جمعرات کو ہونے والی ہے۔
عراق میں گزشتہ برس دسمبر سے سنی عرب اقلیت کے اندر عدم اطمینان بڑھ گیا ہے، جنہوں نے شیعہ حکومت کے خلاف احتجاج کا سلسلہ تیز تر کر دیا ہے۔ عراق میں اس سال کے آغاز سے شورش اور بے چینی بہت زیادہ بڑھتی دکھائی دے رہی ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سنیوں کے مظاہروں کی بنیادی وجوہات سے نمٹنے کے لئے شیعہ قیادت کی طرف سے کوششوں کی کمی عسکریت پسند گروپوں کی بپا کی ہوئی شورش کی آگ کو مزید ہوا دے رہی ہے۔
km/aa(AP)