عراق: مرکزی مسيحی شہر پر بھی اسلامک اسٹيٹ کی چڑھائی
7 اگست 2014بد امنی اور فرقہ وارانہ فسادات کے شکار ملک عراق ميں سنی انتہا پسندوں کی تنظيم اسلامک اسٹيٹ کے جہاديوں نے ملک ميں سب سے بڑی اور قريب مکمل طور پر مسيحی آبادی کے حامل شہر قراقوش اور اس کے نواحی علاقوں پر قبضہ کر ليا ہے۔ پيش مارگا نامی کرد دستوں کے پيچھے ہٹنے کے بعد اسلامک اسٹيٹ کے جنگجوؤں نے قراقوش اور ديگر شہروں پر چڑھائی بدھ اور جمعرات کی درميانی شب کی۔
نيوز ايجنسی اے ايف پی سے بات کرتے ہوئے کرکوک اور سليمانيہ کے آرچ بشپ جوزف تھومس نے بتايا ہے کہ قراقوش کے علاوہ تل کيف، برتيلہ اور کرمليش نامی ديگر شہروں کو خالی کرا ليا گيا ہے اور ان شہروں پر اب جہاديوں کا قبضہ ہے۔ قراقوش کی آبادی قريب پچاس ہزار ہے اور وہاں رہنے والے قريب تمام افراد کا تعلق مسيحی مذہب سے ہی ہے۔ يہ شہر عراق ميں سرگرم اسلامک اسٹيٹ کے جہاديوں کے گڑھ موصل اور کرد خطے کے صدر مقام اربل کے بيچ ميں واقع ہے۔
آرچ بشپ جوزف تھومس نے صورتحال کو ايک سانحے سے تعبير کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مطالبہ کيا ہے کہ وہ فوری طور پر اس معاملے ميں مداخلت کرے۔ انہوں نے مزيد کہا، ’’اس وقت بھی ہزاروں خوف زدہ لوگ پناہ کی تلاش ميں نقل مکانی کر رہے ہيں۔ صورتحال ناقابل بيان ہے۔‘‘
عراق کی مسيحی برادری و ديگر اقليتوں کے ليے سرگرم فرانسيسی دارالحکومت پيرس ميں قائم ايک ايسوسی ايشن کے سربراہ فراج بينيوں کيموات کے بقول يہ 2003ء کے بعد سے عراقی مسيحيوں کے ليے سب سے بڑا سانحہ ہے۔
کرد فورسز پيش مرگا کے ترجمان کے بقول ان کی افواج قراقوش اور شمال ميں واقع ايک اور شہر القوش اور ديگر کچھ مقامات پر اسلامک اسٹيٹ کے جنگجوؤں کے خلاف اس وقت بھی برسرپيکار ہيں۔ تاہم اس کی تاحال آزاد ذرائع يا عينی شاہدين سے تصديق نہيں ہو پائی ہے۔
يہ امر اہم ہے کہ اسلامک اسٹيٹ کے شدت پسندوں نے نو جون کو شمالی عراق ميں اپنی پر تشدد کارروائيوں کا آغاز کيا تھا اور انہوں نے دوسرے ہی روز موصل اور ديگر کئی شمالی عراقی شہروں پر قبضہ کر ليا تھا۔ تازہ پيشرفت کے بعد اب اس تنظيم کے جنگجو کردوں کی علاقائی حکومت کی حدود کی سرحد سے صرف بيس کلوميٹر اور ان کے مرکزی شہر اربل سے صرف چاليس کلوميٹر کے فاصلے پر ہيں۔
پاپائے روم فرانسس نے جمعرات کو جاری کردہ ايک بيان ميں عالمی برادری سے اپيل کی ہے کہ شمالی عراق ميں مسيحيوں کے تحفظ کے ليے عملی اقدامات کيے جائيں۔