عراق میں امریکی مفادات، ڈی ڈبلیو کا تبصرہ
30 جون 2014اس موضوع پر واشنگٹن سے مِیودراگ زورِچ کا لکھا تبصرہ:
اس وقت امریکا میں صدر اوباما کی عوامی مقبولیت کی سطح کافی کم ہے۔ لیکن بات عراق کی ہو تو زیادہ تر امریکی ان کے حامی دکھائی دیتے ہیں۔ واشنگٹن کی رائے میں بغداد سے کوئی اچھی امید لگائی ہی نہیں جا سکتی اور عراق میں نئے سرے سے اپنے زمینی دستے تو امریکا کو بھیجنے ہی نہیں چاہیئں۔
امریکی حکومت کا خیال ہے کہ عراق میں ایران اور سعودی عرب کی ان کے نمائندوں کے ذریعے لڑی جانے والی جنگ آئندہ بھی جاری رہے گی اور یہ تنازعہ بظاہر فوجی ذرائع سے حل نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے امریکا کو دور ہی رہنا چاہیے۔
اسلامی ریاست عراق و شام یا ISIS کے عسکریت پسند عراق کے وسیع تر علاقوں پر قبضہ کر چکے ہیں، وہاں انہوں نے خلافت کے قیام کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ اب وہ شام کو مزید غیر مستحکم کر رہے ہیں اور جلد یا بدیر ان سے اردن، لبنان حتیٰ کہ اسرائیل کو بھی خطرہ ہو سکتا ہے۔ لہٰذا امریکا اس پورے خطے کو اس کے حال پر نہیں چھوڑ سکتا۔
وہاں اس وقت بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے، بالآخر امریکا کی اپنی سلامتی بھی۔ اگر اسلام پسند باغیوں نے عراقی خانہ جنگی کو دہشت گردی کے تربیتی کیمپوں کے لیے استعمال کیا تو امریکا نہ تو اپنا منہ دوسری طرف موڑ سکے گا اور نہ ہی وہ ایسا کر سکنے کی پوزیشن میں ہو گا۔
مختصراﹰ کہا جائے تو واشنگٹن کا اسٹریٹیجک ہدف یہی ہے کہ اس خطے سے خود امریکا یا اس کے اتحادیوں کے لیے کوئی خطرہ پیدا نہ ہو۔ یوں امریکا کے لیے یہ بات ثانوی اہمیت کی حامل ہے کہ عراق میں کوئی مضبوط مرکزی حکومت قائم ہوتی ہے یا یہ ریاست عملاﹰ تین حصوں میں تقسیم ہو جاتی ہے: شمال میں کردوں کا قبضہ، مغرب میں سنیوں کا اور جنوب اور بغداد میں شیعوں کا۔
امریکی نائب صدر جو بائیڈن نے، جنہوں نے گزشتہ برس عراقی وزیر اعظم نوری المالکی سے ایک درجن مرتبہ ٹیلی فون پر بات کی اور کئی مرتبہ انہیں ذاتی طور پر ملے بھی، 2006ء میں ہی تجویز پیش کر دی تھی کہ عراق کو تقسیم کر دیا جائے۔ لیکن اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں کہ آیا یوں مشرق وسطیٰ کا خطہ زیادہ مستحکم ہو جائے گا؟
قلیل المدتی بنیادوں پر امریکا ISIS کے شدت پسندوں کو کمزور بنانا چاہتا ہے، ہو سکے تو انہیں عراق سے نکال ہی دیا جائے۔ اسی لیے امریکا نے خطے میں اپنے فوجی مشیر بھیجے ہیں، ایران کے ساتھ رابطے بھی جاری ہیں اور وزیر خارجہ جان کیری خلیج کی امیر عرب ریاستوں پر واضح کرنے کی کوششوں میں ہیں کہ آئی ایس آئی ایس کے جنگجوؤں کو برداشت یا ان کی مالی مدد کرنا غلط ہو گا۔
لیکن ساتھ ہی امریکا خود کو ایسے برے سے برے حالات کے لیے بھی تیار کر رہا ہے کہ اگر ان عسکریت پسندوں کا بغداد کی طرف مارچ نہ رکا تو بغداد میں امریکی سفارت خانے کے پانچ ہزار کارکنوں کو وہاں سے جلد از جلد کیسے نکالا جائے گا۔ لیکن ابھی نوبت وہاں تک نہیں پہنچی۔