عراق میں دہشت گردی ، 60 افراد ہلاک
17 اگست 2010عراقی دارالحکومت بغداد کے وسط میں قائم فوجی بھرتی کے اس مرکز پر یہ حملہ مقامی وقت کے مطابق صبح ساڑھے سات بجے کیا گیا۔ ایک خود کش بمبار نے بھرتی کے لئے جمع افراد کے درمیان خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔ اس حملے میں تین فوجی اہلکار بھی ہلاک ہوئے۔ دھماکے کے فوراً بعد عراقی دستوں نے جائے وقوعہ کوگھیرے میں لے کر زخمیوں کو ہسپتال پہنچانا شروع کر دیا۔ ساتھ ہی علاقے میں امریکی جنگی ہیلی کاپٹروں کی پروازیں بھی شروع ہوگئی تھیں۔
آج ہونے والا یہ خود کش حملہ گزشتہ ماہ سنی ملیشیا ’سہوا‘ کے مرکز پر ہونے والے اُس خونریز حملے کے بعد سے اب تک کا شدید ترین حملہ ہے، جس میں 45 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس سے قبل بصرہ میں کئے گئے اسی طرح کے ایک حملے میں بھی 40 سے زائد انسانی جانیں ضائع ہو گئی تھیں۔
بغداد کے مرکز میں آج منگل کو جس عمارت کو نشانہ بنایا گیا، وہ پہلے عراقی وزارت دفاع کے استعمال میں تھی۔ گزشتہ کچھ عرصے سے یہ ملکی فوج کے گیارہویں ڈویژن کا مرکزی دفتر ہے۔ وہاں ہر ہفتے قریب ڈھائی سو افراد فوج میں بھرتی کے لئے آتے ہیں۔ عراق میں جلد ہی سلامتی کےتمام تر انتظامات ملکی دستوں کو ہی سنبھالنے ہوں گے۔ اس وجہ سے بڑی تعداد میں لوگوں کو بھرتی بھی کیا جا رہا ہے۔
عراقی فوج کے ایک ترجمان قاسم الموسائی نے خبر رساں ادارے اے پی کو بتایا کہ یہ کوئی کار بم حملہ نہیں تھا بلکہ حملہ آور ایک خود کش جیکٹ پہنے ہجوم میں شامل ہو گیا تھا۔ ترجمان نے اس حملےکی ذمہ داری دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ پر عائد کی۔ قاسم الموسائی کے بقول فوج میں بھرتی ہونے کے لئے درخواستیں جمع کرانے کی آج منگل کے روز آخری تاریخ تھی۔ اسی لئے وہاں تقریباً ایک ہزار افراد کا مجمع لگا تھا اور اتنے بڑے ہجوم کو کسی بھی ہنگامی حالت میں کنٹرول کرنا آسان نہیں ہوتا۔
عراق میں سات مارچ کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے بعد ابھی تک ملکی سیاسی جماعتیں نئی حکومت بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکیں۔ ابھی پیر کی رات ہی وزیراعظم نوری المالکی اور ان انتخابات کے فاتح ایاد علاوی کے مابین حکومت سازی کے لئے ہونے والی بات چیت کا نیا مرحلہ بھی ناکام ہو گیا تھا۔ اس کے علاوہ امریکی افواج کا ایک بڑا حصہ بھی اس ماہ کے آخر تک عراق خالی کر دے گا۔ اسی وجہ سے عراقی حکام شدید دباؤ کا شکار ہیں۔
امریکی صدر باراک اوباما کے بقول2011 ء کے اختتام تک امریکی افواج مکمل طورپرعراق خالی کر دیں گی۔ تاہم اُس وقت تک صرف پچاس ہزار امریکی فوجی عراقی دستوں کو تربیت دینے کے غرض سے وہاں تعینات رہیں گے۔ ماہرین کے مطابق عسکریت پسند سلامتی کے ناکافی انتظامات اور موثر حکومت نہ ہونے کے باعث پیدا ہونے والے خلاء کو اپنے حق میں استعمال کر رہے ہیں۔
رپورٹ: عدنان اسحاق
ادارت: مقبول ملک