عراق میں علاقائی سمٹ: بغداد اب مصالحت کار بننے کی کوشش میں
23 اگست 2021مصالحتی کوششوں کے سلسلے میں عراق نے ایک علاقائی سمٹ کی تجویز پیش کی ہے۔ یہ سربراہی اجلاس ہفتہ اٹھائیس اگست کو منعقد ہو گا۔ بغداد حکومت کا خیال ہے کہ اس سمٹ سے مختلف معاملات کے حوالے سے پیدا شدہ 'بند گلی کی سی صورت حال‘ میں ایک نیا مفاہمانہ راستہ نکال کر خطے کی اقوام میں یگانگت کی فضا پیدا کرنا ہے۔
یہ افغانستان نہیں، امریکا اور عراق کے پیچیدہ باہمی تعلقات
بغداد حکومت کی کوشش ہے کہ خطے میں لرزا پیدا کرنے والی بحرانی کیفیات کی شدت بھی کم کی جانا چاہیے۔
اٹھائیس اگست کی سمٹ
عراقی وزیر اعظم مصطفیٰ الکاظمی کی کوشش ہے کہ آئندہ ویک اینڈ پر ہونے والی اس سمٹ کو ان کے ملک کے مثبت تشخص کو مزید آگے بڑھانا چاہیے۔ اہم نوعیت کی اس سمٹ میں مصری صدر عبد الفتاح السیسی اور اردن کے شاہ عبداللہ ثانی نے اپنی شرکت کی تصدیق کر دی ہے۔
خطے سے باہر کی دنیا سے فرانس کے صدر ایمانوئل ماکروں کے اس خصوصی علاقائی اجلاس میں شریک ہونے کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ ان ممالک کے علاوہ ایران، سعودی عرب اور ترکی کو بھی اس سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے مدعو کیا گیا ہے۔ ان ممالک نے ابھی اپنی شرکت کی تصدیق نہیں کی۔
امریکا کا عراق میں اپنا جنگی مشن ختم کرنے کا اعلان
عراقی وزیر اعظم کی حیثیت
مصطفیٰ الکاظمی نے چھ مئی سن 2020 کو منصبِ وزارتِ عظمیٰ سنبھالا تھا۔ وہ قریب چار برس تک اپنے ملک کی نیشنل سکیورٹی سروس کے سربراہ بھی رہے ہیں۔ ملکی خفیہ ادارے کی سربراہی کے دوران انہوں نے تہران، ریاض اور واشنگٹن کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کو بہتر خطوط پر استوار کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
ان کا حالیہ کامیاب امریکی دورہ اس امر کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ وزیر اعظم کے طور پر ان کی موجودہ عہدے کے لیے نامزدگی کے بعد ہی کہا جانے لگا تھا تھیں کہ عراق خطے میں زیادہ ہم آہنگی کے لیے فعال ہو سکے گا۔
عراق کا نیا کردار
ماضی میں ڈکٹیٹر صدام حسین کے دور میں عراق پورے خطے میں ایک جابرانہ نظام کا حامل ملک تھا اور اس سے خوف بھی کھایا جاتا تھا۔ عراقی امور کی ماہر مارسین الشماری کا کہنا ہے کہ صدام حسین کے دور میں کویت پر فوج کشی نے اس ملک کے تشخص کو گہنا دیا تھا۔
داعش کو کمزور سمجھنے کی بھول نہ کریں، جرمن انٹلیجنس سربراہ
پھر امریکی فوج کشی نے اس ملک کو ایک کمزور ریاست کا درجہ دے دیا تھا، جو کسی بھی بڑی طاقت کا غلبہ قبول کرنے کی پوزیشن میں چلی گئی تھی۔ الشماری نے آئندہ ہفتے کے روز ہونے والی اس سمٹ کو عراق کے لیے ایک نئے آغاز سے تعبیر کیا ہے۔
پیغام رساں سے مصالحت کار تک
بین الاقوامی امور کے برطانوی تھنک ٹینک چیتھم ہاؤس کے ایک محقق رناض منصور کے مطابق عراق کا نیا کردار، جو ایک مصالحت کار کا ہے، وہ ایک نئے شاندار مستقبل کا غماز ہے اور اسی کا ثبوت یہ سربراہی کانفرنس ہے۔
اس کانفرنس کے حوالے سے عراقی حکومت کے اہلکار کوئی بھی بات کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ قبل ازیں عراقی حکومت ایران اور امریکا کے درمیان مذاکرات کی میزبانی بھی کر چکی ہے۔ اگر اس کی تصدیق ہو جاتی ہے کہ تہران اور ریاض بھی اس کانفرنس میں شریک ہو رہے ہیں، تو یہ کانفرنس خطے کے دو حریف ممالک کو ایک جگہ جمع کرنے میں کامیاب ہو جائے گی اور یوں اس اجتماع کی اہمیت بھی بڑھ جائے گی۔ عراق برسوں سے ایران اور امریکا کی کشیدگی میں بہت نازک پوزیشن کا حامل ملک رہا ہے۔
ع ح / م م (اے ایف پی)