1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتمشرق وسطیٰ

عراق میں فوجی اڈے پر حملہ، ایران نواز مسلح گروہ نشانے پر

20 اپریل 2024

اسرائیل اور ایران کے مابین جاری کشیدگی میں بظاہر مزید اضافے کے فوری امکانات وقتی طور پر کم دکھائی دے رہے ہیں۔ تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دو طرفہ دشمنی کا دروازہ مکمل طور پر اب بھی بند نہیں ہوا۔

https://p.dw.com/p/4f0PF
Irak Bagdad | Einheit der PMF
تصویر: Hadi Mizban/AP/picture alliance

عراق میں ہفتے کی رات ایک فوجی اڈہ دھماکہ سے لرز اٹھا۔ خبر رساں اداروں نے سکیورٹی ذرائع کے حوالے سے اطلاع دی ہے کہ یہ دھماکا دارالحکومت بغداد کے جنوب میں صوبے بابل میں کالسو فوجی اڈے پر ہوا۔ اس اڈے میںایران نواز مسلح گروپوں کا ایک مسکن بھی ہے۔ اے ایف پی نیوز ایجنسی نے عراقی وزارت داخلہ کے ایک ذرائع اور ایک فوجی اہلکار کے حوالے سے بتایا کہ یہ مسلح گروپوں کا اتحاد عراق کی پاپولر موبلائزیشن فورسز یا حشد الشعبی ہیں۔ اس گروپ نے آج ہفتے کے روز جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا کہ فوجی اڈے پر دھماکہ ایک حملے کے نتیجے میں ہوا۔

فوری طور پر کسی نے بھی اس دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی اور امریکی سینٹرل کمانڈ (CENTCOM) نے مزید کہا کہ یہ ''سچ نہیں‘‘ کہ یہ حملہ امریکی افواج نےکیا ہے۔ عراقی وزارت داخلہ کے ذرائع نے بتایا کہ ''فضائی بمباری‘‘ میں ایک شخص ہلاک اور آٹھ دیگر زخمی ہوئے، جب کہ فوجی ذرائع نے بتایا کہ حملے میں تین عراقی فوجی اہلکار زخمی ہوئے۔ حشد الشعبی نے ایک بیان میں زخمیوں کی تعداد بتائے بغیر لکھا ہے کہ ''دھماکے‘‘ نے''مادی نقصانات‘‘ اور جانی نقصان پہنچایا ہے۔

Calso Militärbasis Irak
بغداد کےقریب واقع کالسو کا فوجی اڈہ 2011ء تک عراق میں موجود امریکی افواج کے زیر استعمال بھی رہ چکا ہےتصویر: Khider Abbas/EPA/dpa/picture alliance

اس اتحاد نے تصدیق کی کہ فوجی اڈے پر اس کے احاطے کو نشانہ بنایا گیا تھا اور تفتیش کاروں کو جائے وقوع پر بھیج دیا گیا ہے۔ عالمی برادری پہلے ہی تشویش کا اظہار کر رہی ہے کہ ایرانی حمایت یافتہ فلسطینی گروپ حماس اور اسرائيل کے مابین جنگ ایک وسیع علاقائی تنازعے میں بدل رہی ہے۔ واضح رہے کہ حماس کو يورپی نونين، امريکا، جرمنی اور چند ديگر مغربی ممالک دہشت گرد تنظيم قرار ديتے ہيں۔

اسرائیل ایران کشیدگی بظاہر قابو میں

اس سے قبل مبينہ طور پر اسرائیل نے جمعے کے روز ایران کے شہر اصفہان کے قریب ایک فوجی اڈے کو نشانہ بنایا۔ یہ حملہ ممکنہ طور پر گزشتہ ہفتے کے آخر میں اسرائیلی سرزمین پر ایران کے ڈرون اور میزائل حملےکا بدلہ تھا۔  تاہم اسرائیل اور ایران دونوں نے ہی اس معاملے کو بظاہر ایک حد سے بڑھنے نہیں دیا، جس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ دونوں دشمن ملک اس تازہ کشیدگی کو ایک مکمل علاقائی جنگ میں بڑھنے سے روکنے کے لیے تیار ہیں۔ خیال رہے کہ یکم اپریل کو دمشق میں واقع ایرانی قونصلیٹ پر ایک فضائی حملے میں ایرانی پاسداران انقلاب کے ایک جنرل سمیت سات ایرانی فوجی افسران ہلاک ہو گئے تھے۔ تہران نے اس حملے کے لیے اسرائیل کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے اس سے بدلہ لینے کا عہد کیا تھا۔

اس کے بعد ایران کی جانب سے تیرہ اپریل کو اسرائیل کے خلاف تین سو سے زائد ڈرون، بیلسٹک اور کروز میزائل داغے گئے تھے۔ اسرائیلی فوج کا کہنا تھا کہ اس نے ایران کی طرف سے فائر کیے گئے ننانوے فیصد ڈرون اور میزائلوں کو اہداف تک پہنچنے سے پہلے ہی اپنے اتحادیوں کی مدد سے ناکارہ بنا دیا تھا۔

Iran | Straßenszene in Teheran
ایران میں اسرائیل کے ساتھ حالیہ کشیدگی کے موقع پر ملک بھر خصوصاﹰ دارالحکومت تہران کی دیواروں پر جنگی نوعیت کے پوسٹر اور تصاویر آویزاں کی گئی ہیںتصویر: Fatemeh Bahrami/Anadolu/picture alliance

وسیع علاقائی تنازعے کے امکانات

ایرانی حملے کے بعد اسرائیل کے اتحادیوں نے اسرئیلی حکومت کو بھر پور انداز میں جوابی کارروائی کرنے سے منع کیا تھا تاہم اس کے باجود اسرائیل نے جمعرات کی شب اصفہان کے قریب فوجی اڈے کو نشانہ بنایا۔  بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دوطرفہ کارروائیوں کے باوجود دونوں ممالک کے مابین ایک دوسرے کے خلاف موجود گہری شکایات کو دور کرنے کے لیے عملی طور پر کچھ نہیں کیا گیا بلکہ باہمی دشمنی اور مزید لڑائی کے لیے دروازہ کھلا چھوڑ دیا گیا ہے۔

اسرائیلی روزنامہ ہاریٹز کے عسکری امور کے مبصر آموس ہیرل نے لکھا،  ''حقیقت یہ ہے کہ بین الاقوامی برادری ممکنہ طور پر کشیدگی کو کم کرنے کے لیے بھرپور کوشش کرے گی لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس کے باوجود ہم ایک وسیع علاقائی جنگ کے پہلے سے کہیں زیادہ قریب ہیں۔‘‘

تہران کی جانب سے اسرائیل کی تباہی کے مطالبے، متنازعہ جوہری پروگرام اور مشرق وسطیٰ میں اسرائیل دشمن مسلح گروہوں کی حمایت کے حوالے دیتے ہوئے اسرائيلی حکومت ایران کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتی ہے۔

ان دونوں ممالک کے مابین حالیہ کشیدگی میں اس وقت اضافہ ہوا، جب فلسطینی گروہوں حماس اور اسلامی جہاد نے سات اکتوبر کو اسرائیل پر دہشت گردانہ حملہ کیا، جس میں بارہ سو سے زیادہ اسرائیلی ہلاک ہو گئے تھے جبکہ  دو سو سے زائد کو یرغمالی بنا لیا گیا تھا، جن میں ایک سو تینتیس کے قریب اب بھی قید میں ہیں۔

 اس حملے کے جواب میں ہی غزہ میں اسرائیل کیتباہ کن کارروائی شروع ہوئی تھی جو چھ ماہ سے زائد عرصے سے جاری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ لبنان میں ایک ایرانی حمایت یافتہ مسلح شیعہ گروپ حزب اللہ نے بھی فوری طور پر اسرائیلی اہداف پر حملہ کرنے شروع کر دیےتھے۔ جبکہ عراق، شام اور یمن میں ایرانی حمایت یافتہ ملیشیاؤں نے بھی اسرائیل پر میزائل اور ڈرون برسائے۔

Syrien Angriff auf ein Gebäude in der Nähe der iranischen Botschaft in Damaskus
یکم اپریل کو دمشق میں ایرانی قونصلیٹ پر حملے میں پاسداران انقلاب کے ایک جنرل سمتی سات ایرانی فوجی افسران ہلاک ہو گئے تھے۔ تہران نے اس حملے کے لیے اسرائیل کو زمہ دار ٹھہریا تھاتصویر: MAHER AL MOUNES/AFP

ایران اور اسرائیل کئی دہائیوں سے ایک دوسرے کے خلاف ایک بالواسطہ یا پراکسی  لڑائی لڑتے آئے ہیں لیکن یہ پہلی مرتبہ تھا کہ دونوں نے براہ راست ایک دوسرے پر حملے کیے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ تازہ ترین کشیدگی کے بعد اب صورتحال کسی حد تک قابو میں آتی دکھائی دے رہی ہے۔ واشنگٹن میں قائم مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے سینئر فیلو اور ایک طویل عرصے سے علاقائی تجزیہ کار چارلس لِسٹر کے مطابق ،''میرے خیال میں اصفہان پر حملہ اسرائیل کا صرف ایک پیغام بھیجنے کا طریقہ تھا کہ ہم جہاں چاہیں آپ تک پہنچ سکتے ہیں۔‘‘ 

اس تجزیہ کار کے بقول اگر ان دونوں ملکوں کے درمیان تلخی کا یہ تازہ ترین دور ختم ہو جاتا ہے تو اسرائیل اب اپنی توجہ غزہ میں جاری جنگ اور حزب اللہ کے ساتھ  لڑائی پر مرکوز کر سکتا ہے۔ ان دونوں محاذوں میں سے کسی میں بھی کمی نہ آنے کے ساتھ ساتھ اسرائیل اور ایران کے مابین مزید تشدد کا خطرہ برقرار ہے، حالانکہ جمعہ کے روز کیے گئے اسرائیلی حملے کے بعد کوئی بھی فریق کشیدگی میں اضافے کے لیے بے چین نظر نہیں آتا۔

 مشرق وسطیٰ کے امور پر نظر رکھنے والے ایک تھنک ٹینک مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ میں ایرانی پروگرام کے ڈائریکٹر الیکس واٹنکا نے کہا کہ کوئی بھی فریق تباہی کے دہانے پر کودنے کے لیے تیار نہیں تاہم  واٹنکا نے ایک اہم انتباہ جاری کرتے ہوئے کہا، ''شاید ہم پراکسی جنگ میں واپس جا رہے ہیں۔‘‘  لیکن  بقول ان کے اب یہ پراکسی جنگ ''اچانک ریاستوں کے مابین جنگ شروع ہو جانے کے خطرے سے دوچار ہے، جس کے بارے میں ہمیں پہلے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں تھی۔‘‘

ش ر⁄ ع ب، ع س (اے پی)

اسرائیل جنگ کا متمنی نہیں، اسرائیلی صدر