عراق میں مہاجر ایرانیوں کا اشرف کیمپ
21 جون 2009مجاہدین خلق نامی تنظیم سن اُنیس سو پینسٹھ میں قائم کی گئی تھی اور اُس کا مقصد اُس دور میں امریکی حمایت یافتہ بادشاہ رضا شاہ پہلوی کی حکومت کا خاتمہ تھا۔ مگر اسلامی انقلاب کے بعد اِس کا مرکز و محور یکسر بدل گیا تھا۔ پہلے وہ شاہ کے دور کی مخالف تھی اور بعد میں اس نے اسلامی انقلاب کی قوتوں کی مخالفت شروع کردی۔
مذہبی اکابرین کی نگرانی میں پنپنے والی حکومت کے خلاف مجاہدین خلق کو فرانس میں قائم نینشنل کونسل آف رزسسٹس برائے ایران کا مسلح ونگ کہا جاتا تھا۔ کونسل نے سن دو ہزار ایک میں ہتھیار کے استعمال کو ترک کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔
دوسری جانب مجاہدینِ خلق تنظیم اپنی سرگرمیوں کے ساتھ موجود دکھائی دیتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ عراق میں قائم اشرف کیمپ میں مجاہدینِ خلق کے ساڑھے تین ہزار تربیت یافتہ اراکین موجود ہیں۔ اشرف کیمپ عراقی سرزمین پر واقع ہے مگر یہ ایرانی سرحد کے قریب ہے۔ یہ عراقی شہر الخالص کے شمال مشرق میں واقع ہے اور دارالحکومت بغداد سے ساٹھ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ اشرف کیمپ، ایرانی سرحد سے ایک سو بیس کلو میٹر کی دوری پر واقع اشرف نامی چھوٹے سے شہر میں واقع ہے۔
یہ شہر ایرانی شاہ رضا شاہ پہلوی کے دور کی مشہور خاتون سیاسی قیدی اشرف رجاوی کے نام پر قائم کیا گیا ہے۔ اِس کیمپ کے نام کا تعلُق ایرانی شاہ کی بہن اشرف پہلوی سے ہر گز نہیں ہے۔ اشرف رجاوی کو سن اُنیس سو اناسی میں رہائی نصیب ہوئی تھی وہ شاہ کی آمریت کی زبردست مخالف تھیں۔ رہائی کے بعد اُنہوں نے مشہور ایرانی سیاسی لیڈر مسعودی رجاوی سے شادی کر لی تھی۔
مسعود رجاوی نے سن اُنیس سو اکیاسی میں بنی صدر کی حکومت کے خاتمے کے بعد ملک سے فرار ہو کر فرانس میں پناہ لی تھی اور وہاں سے مزاحمتی تحریک شروع کی اور قومی کونسل تشکیل دی تھی جس کا مسلح ونگ مجاہدین خلق تھا۔ رجاوی کے عراقی صدر صدام حسین سے بھی تعلُقات تھے۔ اِس سلسلے میں ایک ویڈیو بھی سن دو ہزار تین میں منظر عام پر آچکا ہے۔ اِس مناسبت سے مجاہدین خلق اور صدام حکومت کے درمیان رابطوں کا پتہ ملتا ہے۔ اِسی تعلُق کی بنا پر ایران عراق جنگ کے دوران مجاہدینِ خلق کے ایران مخالف آپریشن کی رپورٹس اب سامنے آ چکی ہیں۔ صدام دور حکومت میں سن اُنیس سو اکیانوے میں کُرد تحریک اٹھنے کے بعد اِنہوں نے کرد آبادی کے خلاف بھی آپریشن میں حصہ لیا تھا۔ عراق میں اتحادی فوج کی موجودگی کے دور میں کیمپ اشرف کو اُن کی سرگرمیوں کا مرکز بھی تصور کیا جاتا تھا۔ اس ضمن میں امریکی فوج کے چوتھے پیدل ڈویژن کے کمانڈر جنرل Raymond T. Odierno کا نام خاص طور سے لیا جاتا ہے۔
اِس سال پہلی جنوری سے قبل اِس کیمپ کی حفاظت پر مامُور امریکی فوجی تھے اور اب حفاظتی ذمہ داری عراق کے سُپرد کی جا چکی ہے۔
کیمپ اشرف بنیادی طور پر مجاہدین خلق تنظیم کا مرکز خیال کیا جاتا ہے جو کئی برسوں تک فرانس میں قائم ایک تنظیم کا مسلح گروہ تھا۔ اِس کا اساسی شہر اُنیس سو چھیاسی ہے جب تنظیم کے لوگ ایران سے مہاجرت اختیار کر کے عراق پہنچے تھے۔
کیمپ اشرف کے مکینوں کی جنیوا کنوینشن کے تحت امداد کی جاتی ہے۔ عالمی ادارہٴ ہلال احمر بھی باقاعدہ اِن کی مدد کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے۔ سن دو ہزار تین میں امریکی فوج نے جب کیمپ کا کنٹرول سنبھالا تو تمام اسلحے کو بھی اُنہوں نے اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔ بعد میں ملٹری پولیس کی نگرانی میں اِس کے تمام اسلحوں کو تلف کردیا گیا تھا۔