عراق میں چالیس سے زائد مجرموں کو پھانسی، اقوام متحدہ کی تشویش
11 اکتوبر 2013عراق میں اسی ہفتے کے دوران منگل اور بدھ کے روز ’’ دہشت گردی اور قتل عام‘‘ میں ملوث تین درجن سے زائد افراد کو دی گئی موت کی سزا کے تحت پھانسیاں دے دی گئیں۔ ایسے مجرموں کی تعداد عراقی سکیورٹی حکام نے 42 بتائی ہے، ان میں ایک خاتون بھی شامل ہے۔ عراقی وزارت انصاف کے مطابق موت کی سزا پانے والے مجرموں کی سزاؤں پر عدالتی ججوں نے ایک سے زائد مرتبہ دائر کی گئی اپیلوں کی روشنی میں غور کیا اور وہ ہر مرتبہ اسی نتیجے پر پہنچے کہ سنائی گئی سزا درست ہے اور اس پر حکام کو عمل کرنا چاہیے۔
عراقی حکومت کے مطابق پھانسی پانے والے تمام مجرم گھناؤنے جرائم میں ملوث تھے اور یہ دہشت گردی کے علاوہ قتل عام کے مرتکب ہوئے تھے۔ عراق دنیا بھر میں پھانسی دینے والا تیسرا ملک ہے۔ سب سے زیادہ موت کی سزا دینے والا ملک چین ہے اور اُس کے بعد ایران ہے۔ سن 2011 میں عراق میں کُل 68 مجرموں کو پھانسیاں دی گئی تھیں۔ گزشتہ برس بھی عراق میں 129 مجرم پھانسی گھاٹ تک پہنچے تھے۔ ایک ہفتے کے دوران 42 مجرموں کو تختہ دار پر لٹکانے کے بعد رواں برس عراق میں دی جانے والی پھانسیوں کی تعداد 132 ہو گئی ہے۔
عراقی وزیر انصاف حسن الشِمری نے 42 افراد کو دی جانے والی پھانسیوں کے حوالے سے واضح کیا کہ تمام مجرموں پر دہشت گردانہ جرائم کے الزامات کو استغاثہ نے شہادتوں کی روشنی میں ثابت کر دیا تھا۔ الشمری کے مطابق پھانسی پانے والے مجرم معصوم انسانوں کے قاتل تھے اور ان کے جرائم کی وجہ سے ریاستی استحکام کو شدید نقصان کا سامنا رہا ہے۔ وزیرانصاف نے یہ بھی کہا کہ ان مجرموں کی مجرمانہ وارداتوں کے باعث عوام الناس میں خوف و دہشت اور افراتفری بھی پیدا ہوئی تھی۔ عراق رواں برس دہشتگردانہ واقعات کی لپیٹ میں ہے اور چھ ہزار لوگ مارے جا چکے ہیں۔
بھانسیاں دینے کے حکومتی فیصلے پر اقوام متحدہ کی جانب سے گہری تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ اسی طرح انسانی حقوق پر نگاہ رکھنے والی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے عراق میں پھانسی دینے کے عمل کو پریشان کُن قرار دیا ہے۔ دونوں اداروں نے عراق کی حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ پھانسی کی سزا دینے کے سلسلے کو فوری طور پر معطل کرے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مشرق وسطیٰ و شمالی افریقہ کے شعبے کی ڈپٹی ڈائریکٹر حسیبہ حاج الصحراوی کا کہنا ہے کہ عراق میں پھانسی دینے کے سلسلے میں جو اضافہ ہوا ہے وہ حیران کن اور پریشان کر دینے والا ہے۔ الصحراوی کے مطابق موت کی سزا اکثر و بیشتر غیر شفاف عدالتی کارروائی کے بعد سنائی جاتی ہے۔