1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق کے پارلیمانی انتخابات پر عالمی برادری کا ردعمل

8 مارچ 2010

عراق میں صدام دَور کے بعد دوسرے پارلیمانی انتخابات میں اتوار کو وہاں کے عوام نے پرتشدد کارروائیوں اور دھمکیوں کے سائے میں اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ تاہم انہوں نے عالمی برادری کی ستائش بھی جیت لی۔

https://p.dw.com/p/MMYB
عراقی وزیر نوری المالکی ووٹ کاسٹ کر رہے ہیںتصویر: AP
Obama / USA / Washington
امریکی صدر باراک اوباماتصویر: AP

امریکہ اور اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری نے عراقی میں انتخابی عمل اور عوام کے حوصلے کو سراہا ہے۔ امریکی صدر باراک اوباما نے تمام ووٹرز کو خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ ان لاکھوں عراقی شہریوں کی قَدر کرتے ہیں، جنہوں نے تشدد کے خوف کے باوجود ووٹ ڈالنے سے انکار نہیں کیا، جنہوں نے اپنا یہ حق استعمال کیا۔

اوباما نے کہا کہ انتخابی عمل عراق کی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل تھا اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عراقی عوام کا مستقبل ان کے اپنے ہاتھوں میں ہے۔

واشنگٹن انتظامیہ نے امید ظاہر کی ہے کہ اس انتخابی عمل سے عراق میں جمہوریت کو فروغ حاصل ہو گا۔

برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ ملی بینڈ نے انتخابی مرحلے سے عراقی عوام کی سنجیدگی کو اہم قرار دیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پولنگ کے روز ہونے والے پرتشدد واقعات سے عراقی عوام کو درپیش چیلنجز کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔

Frankreich Neues Kabinett Bernard Kouchner
برنارڈ کوشنیرتصویر: AP

فرانسیسی وزیر خارجہ برنارڈ کوشنیر نے کہا کہ عراقی عوام نے اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کے لئے ووٹ دیا۔ انہوں نے کہا کہ بحالی اور جمہوریت کے لئے عراق کی کوششوں میں فرانس اور اس کے یورپی اتحادی تعاون جاری رکھیں گے۔

یورپی یونین کی سربراہ برائے خارجہ پالیسی کیتھرین ایشٹن نے کہا کہ عراقی عوام اپنے ملک میں جمہوریت چاہتے ہیں اور یہ بات ٹرن آؤٹ سے ظاہر ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس عمل کی قدر کی جانی چاہئے۔

اقوام متحدہ نے بھی عراقی ووٹروں اور منتظمین کو سراہا ہے۔ تاہم اس عالمی ادارے نے یہ بھی کہا ہے کہ نتائج کے بارے میں قیاس آرائیوں سے محتاط رہنا چاہئے۔ عراق میں اقوام متحدہ کے سفیر Ad Melkert نے بغداد میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ یہ تنازعے اور تشدد پر فتح کا دن ہے۔

اقوام متحدہ کے سفیر نے بغداد اور شمالی شہر کرکوک میں پولنگ اسٹیشنوں کا دورہ بھی کیا۔ انہوں نے ووٹنگ کے لئے کئے گئے انتظامات کو بھی سراہا۔

ان انتخابات کو مختلف بحرانوں کا سامنا کرنے والے اس ملک کی نوعمر جمہوریت کے لئے ایک امتحان قرار دیا جا رہا تھا۔ یہ اس لئے بھی اہم تھے کہ اس مرحلے کے چھ ماہ بعد امریکی افواج عراق چھوڑ دیں گی۔

Belgien EU Parlament Anhörung Catherine Ashton
یورپی یونین کی سربراہ برائے خارجہ پالیسی کیتھرین ایشٹنتصویر: AP

’دی انڈیپینڈنٹ ہائی الیکٹورل کمیشن‘ کے ابتدائی جائزوں کے مطابق ٹرن آؤٹ 50 فیصد سے کچھ زائد رہا ہے۔ تاہم یہ جائزہ ملک کے 16میں سے صرف ایک صوبے کی صورت حال کا ہے۔

مکمل انتخابی نتائج 18 مارچ سے قبل متوقع نہیں ہیں۔ کوئی واحد پارٹی اکثریت حاصل کرنے کی پوزیشن میں دکھائی نہیں دیتی، اس لئے حکومت کے قیام میں نتائج کے بعد کافی عرصہ لگ سکتا ہے۔

اتوار کو ووٹنگ کے دوران زیادہ پرتشدد کارروائیوں بغداد میں ہوئی۔ فلوجہ، بعقوبہ، سمارا اور دیگر شہر بھی ایسی کارروائیوں کا نشانہ بنے۔ اس کے نتیجے میں کم از کم 38 افراد ہلاک ہوئے۔ القاعدہ نے انتخابی عمل کو سبوتاژ کرنے کی دھمکی دے رکھی ہے۔

رپورٹ: ندیم گل / خبررساں ادارے

ادارت : عابد حسین

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں