عراق کے کرکوک میں نسلی تصادم کے دوران متعدد مظاہرین ہلاک
4 ستمبر 2023شمالی عراق کے کثیر النسل شہر کرکوک میں حکام نے اتوار کے روز کرفیو کو ہٹا لیا، جو ہفتے کے روز ہلاکت خیز مظاہروں کے بعد نافذ کیا گیا تھا۔
ایران اور عراق کرد عسکریت پسندوں کو غیر مسلح کرنے پر متفق
سیکورٹی فورسز اور مقامی پولیس حکام نے بتایا کہ کئی دنوں کی کشیدگی کے بعد نسلی گروہوں کے درمیان جھڑپوں میں چار مظاہرین کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا جبکہ ایک درجن سے زیادہ افراد زخمی بھی ہوئے۔
قرآن سوزی: بغداد میں سویڈش سفارت خانہ نذر آتش
تنازعہ کرکوک کی ایک عمارت کے حوالے سے ہے، جو کسی وقت کردستان ڈیموکریٹک پارٹی (کے ڈی پی) کا ہیڈ کوارٹر ہوا کرتی تھی، تاہم سن 2017 سے یہ عمارت عراقی فوج کے اڈے کے طور پر کام کر رہی ہے۔
مشرقی شام میں متحارب غیرملکی حمایت یافتہ جنگجو کون ہیں؟
مرکزی حکومت جذبہ خیرسگالی کے طور پر اس عمارت کو کے ڈی پی کو دوبارہ واپس کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، تاہم عرب اور ترکمان مخالفین اس اقدام کے خلاف ہیں اور انہوں نے گزشتہ ہفتے عمارت کے سامنے ایک احتجاجی کیمپ نصب کر لیا تھا۔
عراق میں ایرانی کرد گروپوں پر ایران کے میزائل اور ڈرون حملے
کرکوک میں ہوا کیا؟
پولیس نے بتایا کہ تشدد اس وقت شروع ہوا جب ہفتے کے روز کرد مظاہرین کے ایک گروپ نے کیمپ کے قریب پہنچنے کی کوشش کی۔ اس موقع پر کرد مظاہرین کو منتشر ہونے پر مجبور کرنے کے لیے انتباہی طور پر فائرنگ کی گئی، کیونکہ پولیس فورسز کو دونوں حریف گروپوں کے درمیان فاصلہ رکھنے اور تصادم نہ ہونے دینے کے لیے تعینات کیا گیا تھا۔
ایران: مظاہروں کے دوران ہی عراق میں کرد ملیشیا پر حملے
سکیورٹی حکام اور پولیس کا کہنا ہے کہ وہ اس واقعے میں ہلاکتوں سے متعلق تحقیقات کر رہے ہیں کہ آخر فائرنگ کس نے کی اور کہاں سے ہوئی۔ کرکوک پولیس نے بتایا کہ دونوں احتجاجی گروپوں کے جانب سے ایک دوسرے پر پتھراؤ کیا گیا اورسلاخوں کا استعمال ہوا جس کی وجہ سے لوگ زخمی ہوئے۔
عراقی وزیر اعظم محمد السودانی نے شہر میں کرفیو اور ''فسادات سے متاثرہ علاقوں میں وسیع حفاظتی آپریشن'' کا حکم دیا۔ انہوں نے ''سیاسی جماعتوں، سماجی تنظیموں، اور کمیونٹی لیڈروں سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ تنازعات کو روکنے اور سلامتی، استحکام اور نظم و نسق کو برقرار رکھنے میں اپنا کردار ادا کریں۔''
شمالی عراق میں نسلی کشیدگی
تاریخی اعتبار سے کرکوک بغداد میں وفاقی حکومت اور شمال میں خود مختار کردستان کے حکام کے درمیان ایک متنازعہ علاقہ رہا ہے۔
سن 2014 میں کردستان کے علاقے کی سیکورٹی فورسز کے ڈی پی اور پیش مرگا نے کرکوک کے علاقے کا کنٹرول سنبھالا تھا۔ تاہم کردوں کی آزادی کے حوالے سے ایک ریفرنڈم کے بعد، وفاقی فوجیوں نے سن 2017 کے موسم خزاں میں انہیں وہاں سے نکال دیا تھا۔
گزشتہ برس جب سے السودانی نے اقتدار سنبھالا ہے، اس وقت سے وہ اپنی حکومت اور کے ڈی پی کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ لیکن وہاں آباد عرب باشندوں اور اقلیتی گروہوں کا کہنا ہے کہ انہیں کرد حکمرانی کے تحت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور وہ کے ڈی پی کی واپسی پر احتجاج کر رہے ہیں۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، رؤئٹرز، ڈی پی اے)