عراقی صحافی منتظر الزیدی کی کتاب کی رونمائی
16 دسمبر 2010The Last Salute to President Bush نامی اس کتاب میں منتظر الزیدی نے اُس یادگار اور تاریخی پریس کانفرنس سے قبل اور دوران رونما ہونے والے واقعات کے حوالے سے اپنے جذبات بیان کئے ہیں، جس میں انہوں نے بُش پر جوتا پھینکا تھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے اس کتاب میں یہ بھی بیان کیا ہے کہ 1991ء کی خلیجی جنگ کے بعد عراق کو کس طرح کی اور کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ زیرحراست گزارے گئے دنوں کی روداد بھی اس کتاب میں بیان کی گئی ہے۔ منتظر الزیدی کا کہنا ہے کہ نو مہینوں کی گرفتاری کے دوران ان پر عراقی اہلکاروں نے زبردست تشدد کیا ہے۔ اسی وجہ سے وہ عراقی وزیراعظم نوری المالکی پر سوئس عدالت میں مقدمہ دائر کریں گے۔ ان کے بقول انہیں بجلی کے جھٹکے لگائے گئے، استری سے اُن کے جسموں کو داغا گیا اور بدنام زمانہ واٹر بورڈنگ کا طریقہ بھی ان پر استعمال کیا گیا۔
منتظر الزیدی نے 14دسمبر2008ء کو عراق کے سرکاری دورے پر آئے اُس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش پر ایک پریس کانفرنس کے دوران اپنے دونوں جوتے دے مارے تھے۔ سابق صدر بش کی حاضر دماغی کے باعث زیدی کا نشانہ چوک گیا تھا۔ تاہم اِس واقعے نے زیدی کو دنیا بھر میں بش مخالف افراد کا ہیرو بنا دیا تھا۔ اس واقعے کے بعد 30 سالہ زیدی کو سرکاری دورے پر آئے ایک غیر ملکی سربراہ مملکت کی تضحیک کے جرم میں تین سال کی سزا ہوئی تھی۔ تاہم جیل میں زیدی کے اچھے برتاؤ اور سزا میں کمی کی اپیل کے نتیجے میں اُن کی قید ایک سال سے بھی کم کردی گئی تھی اور انہیں ستمبر 2009 ء میں رہا کر دیا گیا تھا۔ منتظر الزیدی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ جس وقت بش نے اپنی تقریر شروع کی وہ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے۔ انہوں نے مزید لکھا ہے کہ جس وقت جارج بش اور عراقی رہنما وہاں کھڑے مسکرا رہےتھے اُس وقت اُن کا خون کھول رہا تھا۔
اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے صدر بش نے اپنی کتاب "Decision Points" یعنی فیصلہ کن نکات میں لکھا ہے کہ ’’ کاش میں دونوں میں سے ایک جوتے کو پکڑنے میں کامیاب ہو جاتا‘‘۔ ساتھ ہی انہوں تسلیم کیا کہ منتظر الزیدی نے بہت زور دار انداز میں اُن پر جوتے پھینکے تھے۔ بش نے لکھا ہے کہ کسی صحافی کی جانب سے اُن پر جوتا پھینکنے کا یہ واقعہ ان کے لئے ایک عجیب و غریب تجربہ تھا۔
رپورٹ: عدنان اسحاق
ادارت : کشور مصطفی