عراقی فورسز فلوجہ شہر کے مرکزی حصے میں داخل
17 جون 2016بتایا گیا ہے کہ عراق کی حکومتی افواج نے فلوجہ کے مرکزی علاقے میں واقع جن سرکاری عمارات پر پھر سے قبضہ کر لیا ہے، اُن میں بلدیہ کی عمارت بھی شامل ہے۔ عراقی افواج کو امریکی قیادت میں سرگرم اتحادی افواج کے فضائی حملوں کا بھی تعاون حاصل تھا۔
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق ’اسلامک اسٹیٹ‘ (داعش) کے جنگجو اب بھی اس شہر کے ایک بڑے حصے پر اپنا کنٹرول برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ مزید یہ کہ دارالحکومت بغداد سے ایک گھنٹے کی مسافت پر واقع اس شہر کی متعدد گلیوں اور مکانات میں بارودی سرنگیں بچھی ہوئی ہیں۔
عراقی فوج کے ایک بیان کے مطابق بلدیہ کی عمارت پر سرکاری پرچم لہرا دیا گیا، جس کے بعد باغیوں کی سرکوبی کا مشن بدستور جاری ہے۔ اتحادی افواج کے ایک ترجمان نے بھی کئی گھنٹے بعد اس پیشقدمی کی تصدیق کر دی۔
شہر کے اندرونی حصے کی جانب بڑھتے ہوئے سرکاری عراقی دستے گھات لگا کر گولی چلانے والوں کی فائرنگ کی زَد میں آ رہے ہیں۔ وقفے وقفے سے فضائی بمباری کے ساتھ ساتھ توپ خانے کے گولے بھی داغے جا رہے ہیں اور مشین گنوں کی آواز بھی سنائی دے رہی ہے۔
عراقی فوج کے ایک بیان کے مطابق سرکاری فوجی بلدیہ کی عمارت سے کوئی ایک سو میٹر آگے ایک بڑی مسجد میں بھی داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے ہیں اور شہر کے وسطی علاقے سے دھوئیں کے بادل اٹھتے نظر آ رہے ہیں۔ مزید یہ کہ وزارتِ داخلہ کے بھاری اسلحے سے لیس پولیس یونٹ بغداد اسٹریٹ پر آگے بڑھ رہے ہیں۔ یہ بڑی شرقی غربی سڑک شہر کے اندر سے ہو کر گزرتی ہے۔ اسی دوران بتایا گیا ہے کہ انسدادِ دہشت گردی سروس CTS کے کمانڈوز نے فلوجہ ہسپتال کا محاصرہ کر لیا ہے اور وہ اگلے چند گھنٹوں میں اس ہسپتال پر کنٹرول حاصل کر لیں گے۔
عراقی فورسز نے فلوجہ کو داعش سے واپس چھیننے کے لیے اپنا آپریشن تئیس مئی کو شروع کیا تھا۔ اس شہر کو اُن امریکی افواج کے خلاف سنّی بغاوت کا تاریخی گڑھ سمجھا جاتا ہے، جنہوں نے 2003ء میں سنی العقیدہ صدام حسین کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ بعد میں یہی بغاوت عراق کے نئے شیعہ حکمرانوں کے خلاف بھی جاری رہی۔
فلوجہ کے خلاف آپریشن میں ایران کی پشت پناہی سے سرگرم شیعہ ملیشیا بھی عراقی افواج کے شانہ بشانہ لڑ رہی ہے اور خدشہ ہے کہ شہر میں فرقہ ورانہ ہلاکتوں کے واقعات عمل میں آ سکتے ہیں۔ آیت اللہ علی السیستانی نے حکومت نواز شیعہ جنگجوؤں پر انتقام نہ لینے کے لیے زور دیا ہے۔