عراقی فورسز کے داعش کے خلاف بڑے آپریشن کا آغاز
13 جولائی 2015عراقی دستوں کی جوائنٹ آپریشنز کمانڈ کے بریگیڈیئر جنرل یحییٰ رسول نے سرکاری ٹیلی وژن سے نشر کردہ اپنے ایک بیان میں آج کہا کہ یہ آپریشن علی الصبح شروع کیا گیا، جس میں حکومتی فورسز کو شیعہ اور سُنی دونوں مذہبی گروپوں سے تعلق رکھنے والے حکومت کے حامی جنگجوؤں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ بریگیڈیئر جنرل رسول نے تاہم اس امر کی وضاحت نہیں کی کہ آیا اس فوجی آپریشن میں امریکی قیادت والا بین الاقوامی اتحاد بھی شامل ہے۔
ایسا پہلی بار نہیں ہو رہا کہ بغداد حکومت صوبے انبار کو دوبارہ اپنے قبضے میں لینے کے لیے بڑی فوجی کارروائی کر رہی ہے۔ لیکن موجودہ آپریشن اس لیے بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ صوبائی دارالحکومت رامادی سمیت انبار کے متعدد اہم شہر اس وقت اسلامک اسٹیٹ کے قبضے میں ہیں۔ گزشتہ مئی میں حکومت نے رامادی کو واپس اپنے قبضے میں لینے کے لیے ایک آپریشن شروع کرنے کا اعلان تو کیا تھا تاہم تب سے لے کر اب تک اس حوالے سے کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہو سکی تھی۔
شدت پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ یا داعش نے 2014 ء میں انبار کے زیادہ تر علاقوں کا کنٹرول حاصل کر لیا تھا اور پھر اسی سال مئی میں اس دہشت گرد گروہ کے جہادیوں نے رامادی پر بھی قبضہ کر لیا تھا۔
گزشتہ چند ماہ کے دوران عراقی فورسز فضائی حملوں کی مہم کے ساتھ عسکریت پسندی کے خلاف اپنے آپریشن میں کافی تیزی سے کامیابی حاصل کر رہی تھیں۔ اس دوران عراقی فورسز کو ایک بڑی فتح گزشتہ ماہ اس وقت حاصل ہوئی تھی جب انہوں نے سابق عراقی آمر صدام حسین کے آبائی شہر تکریت پر دوبارہ قبضہ کر لیا تھا۔
گزشتہ چند ہفتوں سے عراقی فوجی دستے مسلسل پیش رفت کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور جگہ جگہ عسکریت پسندوں کے سپلائی روٹ بھی منقطع کیے جا رہے ہیں۔ عراقی فوجیوں نے رامادی اور فلوجہ کو گھیرے میں لے کر ان شہروں کو ان کے ارد گرد کے علاقوں سے کاٹ دیا ہے۔
آج پیر کے روز ملک کے سب سے بڑے صوبے انبار میں سرکاری دستوں کے آپریشن کے آغاز کی خبر ایک ایسے وقت پر سامنے آئی ہے جب ابھی دو ماہ پہلے ہی اسلامک اسٹیٹ نے انبار کے دارالحکومت رامادی کو اپنے قبضے میں لینے کا اعلان کیا تھا۔ اس طرح داعش کے جنگجوؤں کی طرف سے بغداد سے مغرب کی طرف کے سُنی اکثریتی صوبے کو کنٹرول میں لے لینے کی تصدیق ہو گئی تھی۔
آج ٹیلی وژن پر اپنے خطاب میں بریگیڈیئر جنرل یحییٰ رسول کا کہنا تھا، ’’آج صبح پانچ بجے انبار کو داعش سے آزاد کرانے کے لیے آپریشن کا آغاز کر دیا گیا ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ آپریشن عراقی فوج کر رہی ہے، جس میں بنیادی طور پر شیعہ ملیشیا ’الحشد الشعبی‘ یعنی ’مقبول فوجی حرکت‘ کے یونٹ، اسپیشل فورسز، پولیس اور سُنی مسلم قبائلی جنگجو بھی شامل ہیں۔