1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عرب ليگ سے معاہدے کے باوجود شام ميں مظاہرين پر فائرنگ

4 نومبر 2011

شام ميں اپوزيشن کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ آج جمعہ کی نماز کے بعد ہونے والے احتجاجات پر صدر بشار الاسد کی حکومت کے رد عمل سے يہ ظاہر ہو گا کہ شامی حکومت عرب ليگ سے طے شدہ اس معاہدے کی پابندی کرتی ہے يا نہيں۔

https://p.dw.com/p/134wp
قاہرہ ميں عرب ليگ کا اجلاس
قاہرہ ميں عرب ليگ کا اجلاستصویر: picture-alliance/dpa

عرب ليگ سے طے شدہ معاہدے کے تحت مظاہرين پر فائرنگ کے بجائے اپوزيشن سے مذاکرات کيے جائيں گے۔

کل جمعرات کے روز وسطی شامی شہر حمص ميں بہت سے مظاہرين کو گولی مار دی گئی۔ يہ واقعہ عرب ليگ سے شامی حکومت کے اس معاہدے کے بعد پيش آيا کہ

فوج کو شہروں سے ہٹا ليا جائے گا، سياسی قيديوں کو رہا کر ديا جائے گا اور اپوزيشن رہنماؤں سے بات چيت کی جائے گی۔

شام ميں اپوزيشن کے تحفظ کے ليے نو فلائی زون کا مطالبہ کرنے والے مظاہرين
شام ميں اپوزيشن کے تحفظ کے ليے نو فلائی زون کا مطالبہ کرنے والے مظاہرينتصویر: picture-alliance/dpa

شام پر زبردست بيرونی دباؤ ہے کہ وہ سياسی اصلاحات اور صدر بشار الاسد کے استعفے کے عوامی مطالبات کے خلاف طاقت کا استعمال بند کر دے۔ کل جمعرات کو حمص ميں شامی فوج کے ٹينکوں نے ايک رہائشی علاقے پر گولہ باری کی۔ ايک عينی شاہد نے بتايا کہ اُس نے نيشنل ہسپتال ميں، جس پر سکيورٹی فورسز کا کنٹرول ہے، درجنوں لاشيں ديکھيں۔ اُس نے کہا: ’’ان کی موت کے اسباب کا علم نہيں ہے ليکن اُن کے جسموں پر گوليوں کے زخم تھے۔ ايک ڈاکٹر نےمجھے بتايا کہ ان سب کو حمص سے لايا گيا تھا۔‘‘

اپوزيشن کارکنوں نے بتايا کہ بشارالاسد کے مخالفين کے علاقے باب عمرو پر ٹينکوں کی گولہ باری اور حمص کے دوسرے علاقوں ميں فوجيوں اور نشانہ بازوں کی فائرنگ سے مزيد 19 افراد ہلاک ہو گئے۔ مارچ ميں اسد حکومت کے خلاف شروع ہونے والے مظاہروں کے بعد سے شام ميں ميڈيا پر سخت پابندياں لگا دی گئی ہيں جس کی وجہ سے وہاں سے موصولہ اطلاعات کی تصديق نہيں کی جا سکتی۔

اپوزيشن شامی قومی کونسل کے ترجمان احمد رمضان نے کہا: ’’ہم حکومت کے شہری علاقوں سے فوج ہٹا لينے اور شہريوں پر تشدد بند کرنے کے وعدے کے باوجود اُس کا خونيں رد عمل پہلے ہی ديکھ چکے ہيں۔ اگر عرب ليگ سے کيے گئے سمجھوتے کے باوجود جمعہ کو بھی مظاہرين پر فائرنگ کی جاتی ہے، تو پھر عرب ممالک زيادہ سخت اقدامات پر مجبور ہو سکتے ہيں اور وہ مظاہرين کے تحفظ کے بين الاقوامی اقدامات کی حمايت کر سکتے ہيں۔‘‘

دمشق ميں شامی اپوزيشن قومی کونسل
دمشق ميں شامی اپوزيشن قومی کونسلتصویر: picture alliance/dpa

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ شامی حکومت کے تشدد کے نتيجے ميں اب تک 3000 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہيں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ يہ اسلامی عسکريت پسند اور مسلح گروہ ہيں، جو فوج اور پوليس کے 1100 اہلکاروں کو ہلاک کر چکے ہيں۔

مغربی ممالک کی پابنديوں اور ترکی اور شام کے عرب ہمسايہ ملکوں کی تنقيد کے باعث اسد حکومت پر دباؤ ميں اضافہ ہو رہا ہے۔ امريکہ نے کل کہا کہ ايسی کوئی علامت نظر نہيں آ رہی ہے کہ شامی حکومت عرب ليگ سے طے پانے والے معاہدے کی پابندی کر رہی ہے۔ اس حکومت کی اپنے وعدے پورے نہ کرنے کی طويل تاريخ ہے۔

رپورٹ: شہاب احمد صديقی / خبر رساں ادارے

ادارت: عابد حسين