عرب لیگ: فلسطینی اسرائیلی مذاکرات پر وزرائے خارجہ کا تبادلہء خیال
1 مئی 2010ذرائع کا کہنا ہے کہ اِس موقع پر یمنی وزیر خارجہ ابوبکر الکربی نے اپنے ساتھی وُزراء پر زور دیا کہ عرب اسرائیلی مسئلے کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں اٹھایا جانا چاہیے۔ عرب لیگ کے اِس اجلاس کے نام اپنے ایک خط میں الکربی نے لکھا ہے کہ ’اسرائیلی اقدامات عالمی استحکام اور سلامتی کے لئے ایک سنگین خطرہ ہیں اور یہ ضروری ہو گیا ہے کہ سلامتی کونسل اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے اسرائیل کو خلاف ورزیاں بند کرنے، غزہ کی ناکہ بندی ختم کرنے اور بین الاقوامی اصولوں کے مطابق شانہ بشانہ دو ریاستوں کی تشکیل کے حل کو قبول کرنے پر مجبور کرے۔‘
الکربی نے مزید لکھا ہے کہ اسرائیلی کارروائیوں کی رفتار تیز تر ہوتی جا رہی ہے، یہ ملک یکطرفہ حل مسلط کر رہا ہے اور فلسطینی مسئلے کو جڑ سے ختم کرنے کے لئے کوشاں ہے اور ایسے میں عرب دُنیا کو مؤثر طور پر آواز بلند کرنی چاہیے۔
عرب لیگ کا یہ اجلاس اِس تنظیم کے اُس اعلان سے ایک ماہ بعد سامنے آیا ہے، جس میں اِس نے کہا تھا کہ یہ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان جامع مذاکرات کی امریکی تجویز کی تائید و حمایت کرتی ہے۔ تاہم یروشلم میں رہائشی مکانات تعمیر کرنے کے اسرائیلی فیصلے کے بعد لیگ نے اپنی حمایت واپس لے لی تھی۔ شام میں موجود فلسطینی حلقوں نے عرب لیگ پر موجودہ حالات میں کسی طرح کے امن مذاکرات کی حمایت سے متعلق کوئی فیصلہ نہ کرنے کے لئے زور دیا ہے۔ حماس کی قیادت میں دَس فلسطینی گروپوں نے بالواسطہ یا براہِ راست مذاکرات کے سنگین نتائج سے خبردار کیا ہے۔ ایک بیان میں اِن گروپوں نے کہا ہے کہ ’مذاکرات کی بحالی کے سلسلے میں فلسطینیوں یا عربوں کی طرف سے کوئی بھی فیصلہ اُن جرائم کی پردہ پوشی کے مترادف ہو گا، جو اسرائیلی قبضے کے دوران کئے گئے ہیں۔‘
جمعے کو امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے کہا تھا کہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان اگلے ہفتے بالواسطہ مذاکرات ہوں گے اور یہ کہ خصوصی امریکی مندوب برائے مشرقِ وُسطےٰ اِس خطے کا دَورہ کریں گے۔ اِس طرح کے مذاکرات شروع کرنے کے لئے فلسطینی صدر محمود عباس کو عرب ملکوں کی تائید و حمایت کی اِس وقت اشد ضرورت ہے۔ اسرائیلی فلسطینی مذاکراتی عمل سن 2008ء کے اواخر سے تعطل کا شکار چلا آ رہا ہے۔
رپورٹ : امجد علی
ادارت : عاطف توقیر