عرفان صدیقی: گرفتاری و رہائی کی پسِ پردہ کہانی
29 جولائی 2019سرکاری اہلکاروں نے بتایا کہ عرفان صدیقی صاحب سے ملنا ہے۔ گھر کا اندرونی دروازہ کھلا تو عرفان صدیقی نمودار ہوئے۔ وہ چلتے ہوئے بیرونی دروازے پر آئے اور دریافت کیا کہ دروازے پر دستک دینے والے کون ہیں؟ بیرونی دروازے پر کھڑے سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد نے بتایا کہ آپ کے خلاف مقدمہ ہے آپ کو ساتھ لے کر جانا ہے۔ عرفان صدیقی نے وارنٹ گرفتاری طلب کیے تو انہیں بتایا گیا کہ اتنا وقت نہیں ہے انہیں ہر صورت ابھی ساتھ لے کر جانا ہے۔ صدیقی نے کہا کہ مجھے گھر والوں کو مطلع کرنے دیں، بیمار ہوں ادویات بھی لینے دیں مگر اجازت نہ دی گئی۔
اس دوران گھر کے اندر سے صدیقی صاحب کی اہلیہ اور بیٹی بھی باہر نکل آئیں۔ سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکار گھر میں داخل ہو چکے تھے۔ یہ اہلکار صدیقی کو لے جانے لگے تو ان کی اہلیہ اور بیٹی نے مزاحمت کی اور کہا کہ یہ گھر سے لے جانے کا کوئی طریقہ نہیں ہے، یہ سب غیر قانونی ہے۔ سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں نے کہا کہ غیر قانونی ہے مگر ہماری مجبوری ہے۔ بیٹی نے باپ کو بچانے کے لیے مزید مزاحمت کی تو اسے دھکا دے دیا گیا۔ صدیقی کو گاڑی میں بٹھایا تو باوردی پولیس اہلکار بھی ان کے ساتھ بیٹھ گئے، گاڑی چلی اور پھر تھانے جا کر رکی۔
یہ 75 سالہ عرفان صدیقی کی گرفتاری کے وہ لمحات ہیں، جنہیں شاید وہ اور ان کے بچے کبھی نہ بھول سکیں۔ عرفان صدیقی ایک صحافی، معلم اور مسلم لیگ ن کی سابق حکومت کے سابق مشیر رہ چکے ہیں۔ وہ علانیہ مسلم لیگ ن اور سابق وزیراعظم نوازشریف کی حمایت کرتے ہیں مگر آج کل زیادہ سرگرم نہیں۔
میں اس رات ایک دوست کے ساتھ تھا کہ مجھے اس واقعے کے ایک گھنٹے بعد ٹھیک ساڑھے بارہ بجے فون پر ایک کرم فرما نے مطلع کیا کہ عرفان صدیقی گرفتار کر لیے گئے ہیں۔ عرفان صدیقی سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کے قریبی دوست ہونے کے ساتھ ساتھ موجودہ آرمی چیف جناب قمر جاوید باجوہ اور چیرمین جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل زبیر کے اساتذہ میں شمار ہوتے ہیں۔ اس لیے ان کی گرفتاری نے میرے کانوں میں گھنٹیاں بجا دیں کہ آخر ہو کیا رہا ہے؟
سیاسی گرفتاریوں کے اس موسم میں اس اہم گرفتاری کے پیچھے آخر ہے کون؟ حکومت، اسٹیبلشمنٹ یا دونوں؟ عجیب اتفاق ہے کہ میں اسلام آباد میں کم و بیش بیس سال سے صحافت کے پیشے سے وابستہ ہوں۔ کم و بیش ہر قابل ذکر شخصیت سے ملاقاتیں رہیں مگر کبھی صدیقی صاحب سے ملنا نہ ہوا۔ ہاں ان کے بھائی شاہد صدیقی مسلم لیگ ن کے آخری دور حکومت میں وائس چانسلر علامہ اقبال یونیورسٹی تھے، ان سے کچھ خوشگوار نشستیں ضرور رہیں۔
فون پر اطلاع ملنے اور اس کی تصدیق کے ساتھ ہی خبر نشر کر دی اور تھوڑی دیر میں میں تھانہ رمنا کے سامنے موجود تھا۔ تھانے کے گیٹ پر تعینات پولیس اہلکاروں نے اطلاع دی کہ کوئی سینئر افسر موقع پر موجود ہے نہ کسی غیر متعلقہ شخص کو اندر جانے کی اجازت ہے۔ جن پولیس حکام کو میں جانتا تھا تقریباﹰ سبھی نے فون بند کر رکھے تھے۔ اس وقت تک ٹیلی فون پر یہ بات بھی واضع ہو چکی تھی کہ عرفان صدیقی کو قانون کرایہ داری کی خلاف ورزی کے جرم میں پولیس گرفتار کر کے تھانے لائی ہے۔ اس وقت تک یہ خبر بھی ٹیلی وژن پر نشر کر دی گئی۔
تھانے کے باہر کچھ سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد کھڑے تھے۔ خیال آیا کہ یہ خفیہ والے تو نہیں مگر تھوڑی ہی دیر بعد پتہ چلا کہ دو تین افراد عرفان صدیقی کے عزیز و اقارب اور تقریباﹰ اُتنے ہی ان کے ہمراہ گرفتار کیے گیے جاوید اقبال نامی شخص کے ساتھی ہیں۔
انہی سے پتہ چلا کہ بیس جولائی کو ہی عرفان صدیقی کے بیٹے عمران خاور صدیقی نے سیکٹر جی ٹین تھری میں واقع اپنا گھر ایک سال کے کرائے پر جاوید اقبال نامی شخص کو دینے کا معاہدہ کیا تھا۔ قانون کرایہ داری کی رو سے مالک مکان اور کرایہ دار کے کوائف متعلقہ تھانے میں جمع کرانا ایک ذمہ داری تھی، جو ادا نہ کی گئی اور اس لیے عرفان صدیقی کو گرفتار کر لیا گیا۔
ایسے مقدمے کم ہی درج ہوتے ہیں۔ مگر یہ مقدمہ واضع طور پر عرفان صدیقی کو سبق سکھانے کے لیے بنایا گیا تھا کیونکہ اس معاملے میں موجود دستاویزات میں کسی طور بھی عرفان صدیقی کا ذکر تک موجود نہیں تھا مگر پولیس انہیں گرفتار کر لائی تھی۔
تھانے کے باہر میری عرفان صدیقی کے بیٹے نعمان صدیقی سے ملاقات ہوئی، وہ ایک سرکاری محکمے میں افسر ہیں، باپ کی گرفتاری پر پریشان تھے اور سرکاری حیثیت میں بات کرنے سے بھی گریزاں۔
تھوڑی دیر میں تھانے کے باہر خاموشی ہو گئی۔ سب اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے۔ خیال یہ تھا کہ مقدمہ کوئی بڑا نہیں ممکن ہے کہ تھانے میں ہی عرفان صدیقی صاحب کو حکام ضروری ''ہدایات‘‘ دے کر صبح معاملہ رفع دفع کر دیں گے۔ شخصی ضمانت کا معاملہ ہے فوری حل ہو جائے گا۔ مگر واقعات اور حقائق اکثر سوچیں الٹ دیتے ہیں۔ پولیس نے ہتھکڑی لگا کر عرفان صدیقی کو ان کے کرایے دار جاوید اقبال کے ہمراہ مقامی اسسٹنٹ کمشنر مہرین بلوچ کے سامنے پیش کیا۔ صدیقی نے مہرین بلوچ کو عدالت میں بتایا کہ وہ دائیں ہاتھ سے قلم ہی استعمال کرتے رہے ہیں، یہ ہتھکڑی کھلوا دی جائے۔ اسسٹنٹ کمشنر نے عرفان صدیقی کی شناخت تو کی مگر ہتھکڑی کھولنے کا حکم نہ دیا اور عرفان صدیقی کو سیدھا چودہ دن کے لیے جیل بھیج دیا۔
عرفان صدیقی کو نجانے کیا سوجھی، انہوں نے اپنی جیب سے قلم نکال کر ہتھکڑی لگے ہاتھوں سے قلم عدالت میں لہرا دیا۔ وہاں موجود کسی شخص نے تصویر لے لی اور تھوڑی دیر میں وہ تصویر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ عرفان صدیقی جیل بھیج دیے گئے۔
اسی شام وزیر داخلہ بریگیڈیئر ریٹائرڈ اعجاز شاہ نے عرفان صدیقی کی گرفتاری سے لاعلمی کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ گرفتاری خود مسلم لیگ ن نے کروائی ہو گی۔ کسی حکومتی دوست نے بتایا کہ دراصل اس گرفتاری کے پیچھے خود اعجاز شاہ ہی تھے۔ معاملہ رات تک طول پکڑ چکا تھا۔
اگلی صبح مجھے نعمان صدیقی نے فون پر مطلع کیا کہ ان کے والد کو ضمانت پر رہا کیا جا رہا ہے۔ آپ خاتون اسسٹنٹ کمشنر مہرین بلوچ کی کارکردگی ملاحظہ کریں کہ محض ایک دن قبل چھٹی کے روز اس خاتون نے عرفان صدیقی کی ضمانت لینے سے انکار کر کے درخواست پر سماعت کے لیے پیر کے روز کی تاریخ مقرر کی تھی۔ اب بظاہر کسی کا حکم آیا تو اتوار کے روز ہی دفتر کھول کر عرفان صدیقی کی ضمانت کی درخواست منظور کر لی اور رہائی کے لیے جلدی میں روبکار بھی جاری کر دی۔ مہر لگانے والے کا انتظار بھی نہ کیا گیا۔ روبکار جیل پہنچی تو سرکاری اہلکار مُہر لے کر پیچھے پہنچے۔ مُہر لگی اور عرفان صدیقی اور ان کے ہمراہ گرفتار کیے گیے جاوید اقبال رہا کردیے گئے۔
عرفان صدیقی گھر پہنچے تو جس گلی محلے میں انہیں بے توقیر کرنے کی کوشش کی گئی، اسی جگہ ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔ میری ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ انہیں صرف نواز شریف کا ساتھی ہونے کی سزا دی گئی ہے۔ ان کی باتوں سے مجھے تاثر ملا کہ ان کے پاس ابھی تک رہائی کی وجوہات تو نہیں پہنچیں مگر انہیں ایسا لگتا ہے کہ یہ رہائی ان کے ہی کسی طاقتور شاگرد کی وجہ سے عمل میں لائی گئی ہے۔
عرفان صدیقی کے ہمراہ گرفتار اور رہا ہونے والے جاوید اقبال کی بھی سن لیجیے! یہ بیرون ملک مقیم پاکستانی ہیں۔ سب چھوڑ چھاڑ کر بچوں کے ہمراہ پاکستان آئے مگر اس واقعے کے بعد اب وہ دوبارہ ملک چھوڑنے کا سوچ رہے ہیں۔
عرفان صدیقی سے بہت سی باتوں پر اختلاف کیا جا سکتا ہے، ان کے نظریات پر تنقید بھی کی جا سکتی ہے مگر ان کی گرفتاری اور رہائی کے اس واقعے سے دو باتیں واضح ہو گئیں۔ اول یہ کہ ہماری پولیس کو طاقتور حکمران کسی بھی وقت استعمال کر سکتے ہیں۔ دوئم ہماری انتظامیہ، جن کے پاس عدالتی اختیارات بھی ہوتے ہیں، اس قدر نا اہل ہے کہ اسے بھی طاقتور طبقہ موم کی ناک کی طرح جب چاہے موڑ سکتا ہے۔
اس واقعے نے پاکستان کے کریمینل جسٹس سسٹم کی قلعی ایک بار پھرکھول دی ہے۔ تبدیلی سرکار تبدیلی کے نام پر وجود میں آئی تھی مگر لگتا ہے کہ یہ مخالفین کو دبانے کے لیے کسی روایتی سوچ میں تبدیلی لانے کے لیے تیار نہیں۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔